(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يؤمنا فياخذ شماله بيمينه "، قال: وفي الباب عن وائل بن حجر، وغطيف بن الحارث، وابن عباس، وابن مسعود، وسهل بن سعد، قال ابو عيسى: حديث هلب حديث حسن، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، ومن بعدهم يرون ان يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة، وراى بعضهم ان يضعهما فوق السرة، وراى بعضهم ان يضعهما تحت السرة، وكل ذلك واسع عندهم، واسم هلب: يزيد بن قنافة الطائي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، وابْنِ عَبَّاسٍ، وابْنِ مَسْعُودٍ، وسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ، وَاسْمُ هُلْبٍ: يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ.
ہلب طائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہلب رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎، اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس کے برعکس امام مالک سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے وہ شاذ ہے صحیح نہیں، مؤطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے شوافع، احناف اور حنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے، اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں سینے پر یا زیر ناف؟ تو بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل ہیں مگر زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر رضی الله عنہ کی روایت «صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ» ہے، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اور یہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل»(یزید بن قنافہ ہُلب الطائی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحییٰ بن سعید نے ہلب رضی الله عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی)۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے (مسند احمد ۵/۲۲۶) اور وائل بن حجر کی روایت پر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے، ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» ہے، بزار کی روایت میں «عند صدرہ» ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، کیونکہ مجرد اختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتا بلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابر ہوں اور یہاں ایسا نہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» کا جو لفظ ہے وہ مدرج ہے، اسے جان بوجھ کر بعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کر دیا گیا ہے اور ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» اور بزار کی روایت «عند صدرہ» جو آیا ہے تو ان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے، کیونکہ ہلب طائی رضی الله عنہ کی روایت اس کے لیے شاہد ہے، اور طاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزار کی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة (809)، (تحفة الأشراف: 11735)، مسند احمد (5/226، 227) (حسن صحیح)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 252
اردو حاشہ: 1؎: اس کے برعکس امام الک ؒسے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے وہ شاذ ہے صحیح نہیں، مؤطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے شوافع، احناف اور حنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے، اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہا جائیں سینے پر یا زیر ناف؟ تو بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل ہیں مگر زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت ((صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہ الْیُمْنیٰ عَلَی یَدِہِ الْیُسْریٰ عَلَی صَدْرِہِ)) ہے، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اوریہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ((رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ یَنْصَرِفُ عَنْ یَّمِیْنِہِ وَعَنْ یَّسَارِہِ وَرَأَیْتُہ یَضَعُ ہَذِہ عَلَی صَدْرِہ وَوَصفَ یَحْییٰ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ فَوْقَ الْمُفصلِ))”یزید بن قُنافہ ہُلب الطائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب، اور میں نے آپ ﷺ کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحیی بن سعید نے ہلب رضی اللہ عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی“۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے (مسند احمد 5/226) اور وائل بن حجر کی روایت پر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے، ابن خزیمہ کی روایت میں ((عَلَی صَدْرِہ)) ہے، بزار کی روایت میں ((عَنْدَ صَدْرِہ)) ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ((تَحْتَ السُّرَّۃِ)) ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، کیو نکہ مجرد اختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتا بلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابر ہوں اور یہاں ایسا نہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں ((تَحْتَ السُّرَّۃِ)) کا جو لفظ ہے وہ مدرج ہے، اسے جان بوجھ کربعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کر دیا گیا ہے اور ابن خزیمہ کی روایت میں ((عَلَی صَدْرِہ)) اور بزار کی روایت ((عَنْدَ صَدْرِہ)) جو آیا ہے تو ان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے، کیونکہ ہلب طائی رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے لیے شاہد ہے، اور طاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزار کی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 252
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث809
´نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان۔` ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تو اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑے رہتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 809]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے معلوم ہوا کہ قیام میں سنت ہاتھ باندھنا ہے۔ چھوڑنا نہیں جس طرح بعض حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔
(2) پکڑنے سے مراد بایئں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا ہے جیسے کہ حدیث 811 میں آرہا ہے۔
(3) صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ دایاں ہاتھ بایئں بازو پررکھنا چاہیے۔ دیکھئے: (صحیح البخاری، الأذان، باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ، حدیث: 740) یعنی حدیث 811 میں ید سے مراد ہتھیلی نہیں بلکہ بازو ہے۔ اس طرح دونوں حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ اور ہاتھ باندھنے کی وہ کیفیت متعین ہوجاتی ہے۔ جو صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتی ہے۔
(4) قیام میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں جیسے کہ متعدد احادیث میں مروی ہے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ تو آپ نے دایاں ہاتھ اپنے بایئں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة، الصلاۃ، باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ قبل افتتاح القراۃ، حدیث 479) اس کے حاشیے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے لیکن یہ حدیث صحیح ہے۔ کیونکہ دوسری کئی سندوں سے اس سے ملتے جلتے الفاظ سے مروی ہے۔ اس کی مذید تایئد سینے پر ہاتھ باندھنے کی دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ یہ احادیث مسند احمد، طبرانی، ابن ابی حاتم، اور بہیقی میں ملاحظہ کی جا سکتیں ہیں۔ (الحاکم: 537/2 والبیہقی: 30/29 والطبرانی 325/30)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 809