(موقوف) حدثنا حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: " سكتتان حفظتهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فانكر ذلك عمران بن حصين، وقال: حفظنا سكتة، فكتبنا إلى ابي بن كعب بالمدينة، فكتب ابي ان حفظ سمرة، قال سعيد: فقلنا لقتادة: ما هاتان السكتتان؟ قال: إذا دخل في صلاته، وإذا فرغ من القراءة، ثم قال بعد ذلك: وإذا قرا ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7 قال: وكان يعجبه إذا فرغ من القراءة ان يسكت حتى يتراد إليه نفسه، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث سمرة حديث حسن، وهو قول غير واحد من اهل العلم، يستحبون للإمام ان يسكت بعدما يفتتح الصلاة وبعد الفراغ من القراءة، وبه يقول: احمد وإسحاق واصحابنا.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: " سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَقَالَ: حَفِظْنَا سَكْتَةً، فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ، فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ: مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ؟ قَالَ: إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: وَإِذَا قَرَأَ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 قَالَ: وَكَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَسْتَحِبُّونَ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْقِرَاءَةِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ وَإِسْحَاق وَأَصْحَابُنَا.
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ(نماز میں) دو سکتے ہیں جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کیا ہے، اس پر عمران بن حصین رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا اور کہا: ہمیں تو ایک ہی سکتہ یاد ہے۔ چنانچہ (سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں) ہم نے مدینے میں ابی بن کعب رضی الله عنہ کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ نے (ٹھیک) یاد رکھا ہے۔ سعید بن ابی عروبہ کہتے ہیں: تو ہم نے قتادہ سے پوچھا: یہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: جب نماز میں داخل ہوتے (پہلا اس وقت) اور جب آپ قرأت سے فارغ ہوتے، پھر اس کے بعد کہا اور جب «ولا الضالين» کہتے ۱؎ اور آپ کو یہ بات اچھی لگتی تھی کہ جب آپ قرأت سے فارغ ہوں تو تھوڑی دیر چپ رہیں یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ وہ امام کے لیے نماز شروع کرنے کے بعد اور قرأت سے فارغ ہونے کے بعد (تھوڑی دیر) چپ رہنے کو مستحب جانتے ہیں۔ اور یہی احمد، اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب بھی کہتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: پہلے تو قتادہ نے دوسرے سکتے کے بارے میں یہ کہا کہ وہ پوری قراءت سے فراغت کے بعد ہے، اور بعد میں کہا کہ وہ «ولا الضالين» کے بعد اور سورۃ کی قراءت سے پہلے ہے، یہ قتادہ کا اضطراب ہے، اس کی وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دوسرا سکتہ پوری قراءت سے فراغت کے بعد اور رکوع سے پہلے اس روایت کی تائید کئی طرق سے ہوتی ہے، (دیکھئیے ضعیف ابی داود رقم ۱۳۵-۱۳۸) امام شوکانی نے: «حصل من مجموع الروايات ثلاث سكتات» کہہ کر تین سکتے بیان کیے ہیں اور تیسرے کے متعلق کہ جو سورۃ الفاتحہ، اس کے بعد والی قرأت اور رکوع سے پہلے ہو گا - «وهي أخف من الأولى والثانية-» یہ تیسرا سکتہ افتتاح صلاۃ کے فوراً بعد سورۃ الفاتحہ سے قبل والے پہلے سکتہ اور «ولا الضالين» کے بعد اگلی قرأت سے قبل والے دوسرے سکتہ سے بہت ہلکا ہو گا، یعنی مام کی سانس درست ہونے کے لیے بس (دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۱۳ طبع المکتبۃ الفاروقیۃ، ملتان، پاکستان)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 123 (777، 778، 779، 780)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 12 (844، 845)، (تحفة الأشراف: 4589)، وکذا (4576، و4609)، مسند احمد (5/21) (ضعیف) (حسن بصری کے سمرہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع میں اختلاف ہے، نیز ”حسن“ ”مدلس“ ہیں، اور یہاں پر نہ تو ”سماع“ کی صراحت ہے، نہ ہی تحدیث کی، اس پر مستزاد یہ کہ ”قتادہ“ بھی مدلس ہیں، اور ”عنعنہ“ سے روایت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (844 و 845) // ضعيف سنن ابن ماجة (180 و 181)، ضعيف أبي داود (163 /777)، الإرواء (505)، المشكاة (818) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 889، جه 884
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 251
اردو حاشہ: 1؎: یعنی: پہلے تو قتادہ نے دوسرے سکتے کے بارے میں یہ کہا کہ وہ پوری قراء ت سے فراغت کے بعد ہے، اور بعد میں کہا کہ وہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کے بعد اور سورہ کی قراء ت سے پہلے ہے، یہ قتادہ کا اضطراب ہے، اس کی وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دوسرا سکتہ پوری قراء ت سے فراغت کے بعد اور رکوع سے پہلے اس روایت کی تائید کئی طرق سے ہوتی ہے، (دیکھئے ضعیف ابی داؤدرقم 135-138) امام شوکانی نے: ”حصل من مجموع الروايات ثلاث سكتات“ کہہ کر تین سکتے بیان کیے ہیں اور تیسرے کے متعلق کہ جو سورۃ الفاتحۃ، اس کے بعد والی قرأت اور رکوع سے پہلے ہو گا- ”وهي أخف من الأولى والثانية“ یہ تیسرا سکتہ افتتاح صلاۃ کے فوراً بعد سورۃ الفاتحۃ سے قبل والے پہلے سکتہ اور ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کے بعد اگلی قرأت سے قبل والے دوسرے سکتہ سے بہت ہلکا ہو گا، یعنی امام کی سانس درست ہونے کے لیے بس۔ (دیکھئے: تحفۃ الأحوذی 1/213 طبع المکتبۃ الفاروقیۃ، ملتان، پاکستان)
نوٹ: (حسن بصری کے سمرہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع میں اختلاف ہے، نیز ”حسن“ مدلس ہیں، اور یہاں پر نہ تو سماع کی صراحت ہے، نہ ہی تحدیث کی، اس پر مستزاد یہ کہ قتادہ بھی مدلس ہیں، اور”عنعنہ“ سے روایت ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 251