سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
70. باب مَا جَاءَ فِي افْتِتَاحِ الْقِرَاءَةِ بِـ (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ )
70. باب: ”الحمدللہ رب العالمین“ سے قرأت شروع کرنے کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related] About Opening The Recitation With Al-Hamdulillahi Rabbil-Alamin (All Praise Is Due To Allah, The Lord Of All That Exits.)
حدیث نمبر: 246
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، وعمر، وعثمان " يفتتحون القراءة ب: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم كانوا يستفتحون القراءة ب: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، قال الشافعي: إنما معنى هذا الحديث ان النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر، وعمر، وعثمان كانوا يفتتحون القراءة ب: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، معناه انهم كانوا يبدءون بقراءة فاتحة الكتاب قبل السورة، وليس معناه انهم كانوا لا يقرءون بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، وكان الشافعي يرى ان يبدا ب بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1 وان يجهر بها إذا جهر بالقراءة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ " يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، مَعْنَاهُ أَنَّهُمْ كَانُوا يَبْدَءُونَ بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابَ قَبْلَ السُّورَةِ، وَلَيْسَ مَعْنَاهُ أَنَّهُمْ كَانُوا لَا يَقْرَءُونَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1، وَكَانَ الشَّافِعِيُّ يَرَى أَنْ يُبْدَأَ بْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 وَأَنْ يُجْهَرَ بِهَا إِذَا جُهِرَ بِالْقِرَاءَةِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم «الحمد لله رب العالمين‏» سے قرأت شروع کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ «الحمد لله رب العالمين‏» سے قرأت شروع کرتے تھے۔ شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم «الحمد لله رب العالمين‏» سے قرأت شروع کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں پڑھتے تھے، شافعی کی رائے ہے کہ قرأت «بسم الله الرحمن الرحيم» سے شروع کی جائے اور اسے بلند آواز سے پڑھا جائے جب قرأت جہر سے کی جائے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: جو لوگ «بسم الله الرحمن الرحيم» کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم سبھی قرأت «الحمد لله رب العالمين‏» سے شروع کرتے تھے، اور جہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں «الحمد لله رب العالمين‏» سے مراد سورۃ فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ، حدیث کا مطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتداء سورۃ فاتحہ سے کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 89 (743)، صحیح مسلم/الصلاة 13 (399)، سنن ابی داود/ الصلاة 124 (782)، سنن النسائی/الإفتتاح 20 (903)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 4 (813)، (تحفة الأشراف: 1435)، موطا امام مالک/الصلاة 6 (30)، مسند احمد (3/101، 111، 114، 183)، سنن الدارمی/الصلاة 34 (1276) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (813)

   صحيح البخاري743أنس بن مالكيفتتحون الصلاة ب الحمد لله رب العالمين
   صحيح مسلم890أنس بن مالكصليت مع رسول الله وأبي بكر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منهم يقرأ بسم الله الرحمن الرحيم
   صحيح مسلم892أنس بن مالكيستفتحون ب الحمد لله رب العالمين لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم في أول قراءة ولا في آخرها
   جامع الترمذي246أنس بن مالكيفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   سنن أبي داود782أنس بن مالكيفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   سنن النسائى الصغرى904أنس بن مالكافتتحوا ب الحمد لله رب العالمين
   سنن النسائى الصغرى903أنس بن مالكيستفتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   سنن النسائى الصغرى907أنس بن مالكلم يسمعنا قراءة بسم الله الرحمن الرحيم
   سنن النسائى الصغرى908أنس بن مالكصليت خلف رسول الله وأبي بكر وعمر وعثمان م فلم أسمع أحدا منهم يجهر ب بسم الله الرحمن الرحيم
   سنن ابن ماجه813أنس بن مالكيفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين
   بلوغ المرام219أنس بن مالكان النبي وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين
   مسندالحميدي1233أنس بن مالككان النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، وعمر، وعثمان يفتتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 246 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 246  
اردو حاشہ:
1؎:
جو لوگ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾  کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ،
ابوبکر،
عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم سبھی قرأت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے شروع کرتے تھے،
اور جہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے مراد سورہ فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ،
حدیث کامطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتدا سورہ فاتحہ سے کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 246   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 219  
´نماز میں سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز`
«. . . وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين . . .»
. . . حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کا آغاز «الحمد لله رب العالمين» سے کرتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 219]
لغوی تشریح:
«لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللهِ» بسم اللہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ یہ فقرہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مطلقاً بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ تو صرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ کو جہری (بآواز بلند) نہیں پڑھتے تھے۔
«يُسِرُّوْنَ» «إسرار» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بسم اللہ بغیر آواز نکالے آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔
«وَعَلٰي هٰذَا» بسم اللہ کو بے آواز، یعنی سراً پڑھنے پر۔
«يُحْمَلُ» صیغہ مجہول۔ محمول کیا جائے گا۔
«النَّفْيُ» بسم اللہ کی نفی کو۔
«فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ» مسلم کی وہ روایت جو ابھی بیان کی گئی ہے۔
«خِلَافًا لِمَنْ أَعَلَّهَا» یعنی جو شخص یہ کہتا ہے کہ صحیح مسلم میں بسم اللہ کی نفی کا جو اضافہ ہے یہ معلول ہے، وہ اس (سراً بسم اللہ پڑھنے والی) توجیہ کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ نفی کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، تاہم یہ روایت معلول ہو گی۔ لیکن اس بات کے ذریعے سے اس حدیث کے معلول ہونے کی دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ علت دراصل یہ ہے کہ امام اوزاعی نے یہ اضافہ قتادہ کے واسطے سے مکا تبتاً نقل کیا ہے، حالانکہ یہ علت درست نہیں کیونکہ اوزاعی اس کے روایت کرنے میں تنہا نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اس کو روایت کرنے والے ہیں جن کی روایت صحیح ہے، لہٰذا نفی کی وہ تاویل صحیح ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ [تحفة الأحوذي: 204/1]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز کرتے اور بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔
➋ بعض روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے، اس لیے بسم اللہ کو آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، تاہم اکثر اور زیادہ صحیح روایات کی رو سے آہستہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 219   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 903  
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 903]
903 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں قرأت کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہو گی کیونکہ یہ نماز میں فرض ہے۔ یہ دوسری قرأت کی جگہ کفایت کر سکتی ہے۔ کوئی اور سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرے گی (جیسے فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعتیں)۔
➋ اس روایت سے «بسم الله الرحمن الرحيم» بلند آواز سے یا مطلقاً نہ پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے مگر یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کے نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری، حدیث: 506، میں ہے۔ اور «بسم الله الرحمن الرحيم» چونکہ فاتحہ کا جز ہے، اس لیے وہ ضرور پڑھی جائے گی، نیز یہ حدیث «بسم الله الرحمن الرحيم» کے آہستہ پڑھنے کے تو قطعاً منافی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل «بسم الله الرحمن الرحيم» کو آہستہ پڑھنے کا ہے اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے آپ بلند آواز سے قرأت شروع فرماتے، لہٰذا مالکیہ کا «بسم الله الرحمن الرحيم» کو مطلقاً نہ پڑھنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 903   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 904  
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی تو ان لوگوں نے «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کی۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 904]
904 ۔ اردو حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ سب «بسم الله الرحمن الرحيم» آہستہ پڑھتے تھے۔ اسی سے استدلال کیا گیا ہے کہ «بسم الله» کا آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 904   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1233  
1233- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ (بلند آواز میں) قرأت کا آغاز سورۃ فاتحہ کے ذریعے کرتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1233]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کی جہری قرأت الحمد للہ سے شروع کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ جہری قرأت «بسم الله» سے شروع کرنا بھی درست ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1231   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 890  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے ان میں سے کسی سے بلند آواز میں ﴿بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ﴾ کی قراءت نہیں سنی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:890]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین عام طور پر ﴿ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ آہستہ آواز سے پڑھتے تھے شوافع نے اس حدیث کے مختلف معانی بیان کیے ہیں اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک بسملہ سورہ فاتحہ کا جز ہے اس لیے جب سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے تو اس کو بھی بلند آواز سے پڑھنا چاہے اور سنن دارقطنی اور سنن بیہقی کی روایت ہے:
(عَن أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَال:
قَالَ رَسُولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم:
«إِذَا قَرَأْتُمُ «الْحَمْدُ للهِ» فَاقْرَءُوا ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ ) (الحدیث)
لیکن اس روایت میں بسملہ کا فاتحہ کا جزو ہونا ثابت ہوتا ہے اور بلند سے قرآءت کرنا ثابت نہیں ہوتا۔
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اس کو دونوں طرح پڑھنا صحیح ہے۔
(اس مختصر میں دلائل دینے کی گنجائش نہیں ہے)
تفصیل کے لیے مولانا میر سیالکوٹی کی واضح البیان دیکھئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 890   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 892  
حضرت عبدہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے تھے، (سُبْحَانَكَ اللهم! وَبِحَمْدِكَ وَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالىٰ جَدُّكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ) (اے اللہ! تو اپنی حمد و توصیف کے ساتھ، پاکیزگی و تقدس سے متصف ہے، تیرا نام ہی بابرکت ہےاور تیری عظمت و بزرگی بلند و بالا ہے، تیرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں)۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتادہ کو بتایا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ نماز کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:892]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سورہ فاتحہ کا نام ہے تو مقصد یہ ہوا کہ وہ قرآءت کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے تھے اور بِسمِ اللہِ فاتحہ کا جزو ہے راوی نے چونکہ ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کو سورہ کا نام کی بجائے آیت سمجھ لیا۔
اس لیے یہ کہہ دیا کہ وہ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ نہیں پڑھتے تھے۔
(تفصیل کے لیے مولانا میر سیالکوٹی کی واضح البیان دیکھئے۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 892   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 743  
743. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نماز کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:743]
حدیث حاشیہ:
یعنی قرآن کی قرات سورۃ فاتحہ سے شروع کرتے تھے تو یہ منافی نہ ہوگی اس حدیث کے جو آگے آتی ہے۔
جس میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا منقول ہے اور ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے سورۃ فاتحہ مراد ہے۔
اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے کیونکہ بسم اللھ سورۃ فاتحہ کی جزو ہے تومقصود یہ ہے کہ بسم اللہ پکارکر نہیں پڑھتے تھے۔
جیسے کہ نسائی اورابن حبان کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ کو پکار کرنہیں پڑھتے تھے۔
روضہ میں ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ پڑھنا چاہئیے۔
جہری نمازوں میں پکار کر اورسری نمازوں میں آہستہ اور جن لوگوں نے بسم اللہ کا نہ سننا نقل کیاہے وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کم سن تھے جیسے انس ؓ اورعبداللہ بن مغفل اوریہ آخری صف میں رہتے ہوں گے، شاید ان کوآواز نہ پہنچی ہوگی اور بسم الله کے جہر میں بہت حدیثیں وارد ہیں۔
گو ان میں کلام بھی ہو مگر اثبات مقدم ہے نفی پر۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 743   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:743  
743. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نماز کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:743]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا اصول ہے کہ جہاں قوی روایات کی وجہ سے حکم میں اختلاف ہو وہاں اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں لگاتے۔
(2)
امام مالک ؒ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنے کے قائل نہیں ہیں، اگر کوئی پڑھ لے تو اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنا سنت ہے۔
امام بخاری کا رجحان امام مالک کے موقف کی طرف ہے، اس لیے آپ نے دونوں قسم کی روایات کو جمع کردیا ہے۔
حدیث انس ؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا آغاز ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا جائے جبکہ اس کے بعد حدیث ابو ہریرہ ؓ کو ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دعائے افتتاح پڑھی جاسکتی ہے۔
(3)
اب یہ مسئلہ کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔
امام مالک ؒ کے نزدیک بسم اللہ بآواز بلند یا آہستہ کسی طرح بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔
ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ بسم اللہ پڑھی جائے۔
وہ مذکورہ روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ قراءت کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کرنا چاہیے۔
جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔
پھر بسم اللہ پڑھنے والوں میں اختلاف ہے کہ اسے آہستہ پڑھنا چاہیے یا اونچی آواز سے، آہستہ پڑھنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں:
٭حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی۔
میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 890(399)
امام نووی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
اس شخص کی دلیل جو بسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا۔
ایک دوسری روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بآواز بلند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔
(مسندأحمد: 179/3)
بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یہ حضرات آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمة، باب ذکرالدلیل علی أن انسَا......: 1/250)
بعض روایات میں بسم اللہ پڑھنے کی نفی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس نفی کو بآواز بلند پڑھنے پر محمول کیا جائے، یعنی وہ بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔
(فتح الباري: 295/2)
اور جو حضرات بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
حضرت ابو ہریرہ ؓ نے ایک دفعہ نماز پڑھائی تو پہلے انھوں نے بسم اللہ پڑھی، اس کے بعد سورۂ فاتحہ تلاوت کی، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقینامیں نماز ادا کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ ہوں۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي، باب افتتاح القراءة في الصلاة….. 2/46)
٭حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز پڑھی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہا ہوں۔
(سنن الدارقطني، باب وجوب قراءة "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" في الصلاة…… 1/307۔
308)

ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے، البتہ پوشیدہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔
ہاں، جن احادیث میں بسم اللہ کا ذکر نہیں انھیں راوی کے عدم علم یا اس کی قراءت کے مخفی ہونے پر محمول کیا جائے گا اور جن روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے انھیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بآواز بلند بھی پڑھتے تھے تاکہ لوگوں کو اس کی مشروعیت کا پتہ چل جائے۔
یاد رہے کہ بسم اللہ، سورۂ فاتحہ کی ایک آیت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1183)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 743   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.