الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1279
ظلم کا انجام
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: الظلم ظلمات يوم القيامة . متفق عليه»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم، قیامت کے کئی اندھیرے ہو گا۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1279]
تخریج:
[بخاري 2447]،
[مسلم البر والصلة /57]
دیکھیے: [تحفة الاشراف 458/5]
فوائد:
➊ اکثر اہل لغت اور علماء کے نزدیک ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا۔ مثلاً کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ علاوہ ازیں حق بات جو دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح صرف اور صرف ایک ہوتی ہے۔ اس سے تجاوز کو بھی ظلم کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ۔ اس لئے بڑا گناہ ہو یا چھوٹا سب پر ظلم کا لفظ بولا جاتا ہے۔ دیکھئے آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہیں ظالم کہا گیا اور ابلیس کو بھی ظالم کہا گیا۔ حالانکہ دونوں میں بے حد فرق ہے۔ [مفردات راغب ]
➋ ظلم کی تین قسمیں ہیں:
الف:
اللہ تعالیٰ کے متعلق ظلم:
اس کی سب سے بڑی قسمیں کفر، شرک اور نفاق ہے۔ کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے۔ اسی لئے الله تعالیٰ نے فرمایا:
«إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ» [31-لقمان:13]
”یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“
اور فرمایا:
«وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ» [11-هود:18]
”اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبردار اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔“
ب:
لوگوں پر ظلم: ان آیات میں یہی مراد ہے:
«وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا» [42-الشورى:40]
”برائی کا بدلہ برائی ہے اس جیسی۔“
- - الى قولہ - -
«إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ» [42-الشورى:40]
”یقیناً وہ ظالموں سے محبت نہیں رکھتا۔“
اور فرمایا:
«إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ» [42-الشورى:42]
”صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔“
لوگوں پر ظلم خواہ ان کی جان پر ہو یا مال پر یا عزت پر ہر طرح حرام ہے۔
ج:
اپنی جان پر ظلم:
ان آیات میں یہی مراد ہے:
«فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ» [35-فاطر:32 ]
”پھر ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔“
اور فرمایا:
«ظَلَمْتُ نَفْسِ» [28-القصص:16]
”میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔“
اور فرمایا:
«فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ» [2-البقرة:35]
”پس تم دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔“
ان تینوں قسموں میں درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ» [2-البقرة:57]، [7-الأعراف:160]
”اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کیا کرتے تھے۔“
➌ ظلم قیامت کے دن کئی اند ھیرے ہو گا۔ اندھیروں سے مراد یا تو حقیقی اندھیرے ہیں یعنی ظالم کو قیامت کے دن روشنی نصیب نہیں ہو گی جس سے وہ صحیح راستہ معلوم کر سکے جبکہ اہل ایمان کا حال یہ ہو گا کہ:
«نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ» [ 66-التحريم:8]
”ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا۔“
یا قیامت کے دن کی سختیاں مراد ہیں جیسا کہ:
«قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ» [6-الأنعام:63]
”کہہ دیجئے کون ہے جو تمہیں خشکیوں اور سمندروں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔“
اس آیت میں مذکور ظلمات کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد سختیاں ہیں۔ یا قیامت کے دن ظلم کی جو سزائیں ملیں گی وہ مراد ہیں۔ [سبل ]
➍ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا کیونکہ اگر وہ کفر و شرک کی صورت میں ہے تو اس کے مرتکب پر جنت حرام ہے:
«إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ» [5-المائدة:72]
”پکی بات یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔“
اور اگر بندے پر ظلم ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كانت عنده مظلمة لاخيه فليتحلله منها فإنه ليس ثم دينار ولا درهم من قبل ان يؤخذ لاخيه من حسناته فإن لم يكن له حسنات اخذ من سيئات اخيه فطرحت عليه» [بخاري 6534، 2449]
”جس شخص نے اپنے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہو وہ اس سے معاف کروا لے کیونکہ وہاں درهم و دینار نہیں اس سے پہلے پہلے کہ اس کے بھائی کے لئے اس کی نیکیاں لے لی جائیں اگر نیکیاں نہ ہوں تو اس کے بھائی کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں۔“
اب ظاہر ہے جب نیکیاں چھن جائیں گی تو نور کہاں سے آئے گا پھر تو اندھیرے ہی اندھیرے رہ جائیں گے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 136