سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
61. باب مَا جَاءَ فِي الْكِبْرِ
61. باب: تکبر اور گھمنڈ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Arrogance
حدیث نمبر: 1999
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، وعبد الله بن عبد الرحمن، قالا: حدثنا يحيى بن حماد، حدثنا شعبة، عن ابان بن تغلب، عن فضيل بن عمرو، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر، ولا يدخل النار يعني من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان "، قال: فقال له رجل: إنه يعجبني ان يكون ثوبي حسنا ونعلي حسنا، قال: " إن الله يحب الجمال ولكن الكبر من بطر الحق وغمص الناس "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وقال بعض اهل العلم في تفسير هذا الحديث: لا يدخل النار من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان إنما معناه: لا يخلد في النار، وهكذا روي عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يخرج من النار من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان " وقد فسر غير واحد من التابعين هذه الآية ربنا إنك من تدخل النار فقد اخزيته سورة آل عمران آية 192 فقال: من تخلد في النار فقد اخزيته.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ يَعْنِي مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ "، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي حَسَنًا وَنَعْلِي حَسَنًا، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْجَمَالَ وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ بَطَرَ الْحَقَّ وَغَمَصَ النَّاسَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ: لَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِنَّمَا مَعْنَاهُ: لَا يُخَلَّدُ فِي النَّارِ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ " وَقَدْ فَسَّرَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ هَذِهِ الْآيَةَ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ سورة آل عمران آية 192 فَقَالَ: مَنْ تُخَلِّدُ فِي النَّارِ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو، اور جہنم میں داخل نہیں ہو گا یعنی وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو ۱؎۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں؟ آپ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ جمال (خوبصورتی) کو پسند کرتا ہے، لیکن تکبر اس شخص کے اندر ہے جو حق کونہ مانے اور لوگوں کو حقیر اور کم تر سمجھے۔ بعض اہل علم اس حدیث: «ولا يدخل النار يعني من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان» کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا، ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ جہنم سے بالآخر ضرور نکلے گا، کئی تابعین نے اس آیت «ربنا إنك من تدخل النار فقد أخزيته» (سورۃ آل عمران: ۱۹۲) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے: اے میرے رب! تو نے جس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا اس کو ذلیل و رسوا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 9444) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کبر و غرور اللہ کو قطعا پسند نہیں ہے، اس کا انجام بےحد خطرناک اور نہایت برا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1626)

   صحيح مسلم267عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر
   صحيح مسلم266عبد الله بن مسعودلا يدخل النار أحد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان لا يدخل الجنة أحد في قلبه مثقال حبة خردل من كبرياء
   صحيح مسلم265عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر الله جميل يحب الجمال الكبر بطر الحق وغمط الناس
   جامع الترمذي1999عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر لا يدخل النار يعني من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان الله يحب الجمال الكبر من بطر الحق وغمص الناس
   جامع الترمذي1998عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر لا يدخل النار من كان في قلبه مثقال حبة من إيمان
   سنن أبي داود4091عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر لا يدخل النار من كان في قلبه مثقال خردلة من إيمان
   سنن ابن ماجه4173عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر لا يدخل النار من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان
   سنن ابن ماجه59عبد الله بن مسعودلا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر لا يدخل النار من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1999 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1999  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کبر و غرور اللہ کو قطعاً پسند نہیں ہے،
اس کا انجام بے حد خطرناک اور نہایت براہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1999   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4091  
´تکبر اور گھمنڈ کی برائی کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر کبر و غرور ہو اور وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4091]
فوائد ومسائل:
 تکبر جو اللہ تعالی کے انکار اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے معنی میں ہو۔
کسی صورت معاف نہیں ہے اور عام اندازکا تکبر جو لوگوں کی طبیعت میں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر بڑائی کا اظہارکرتے ہیں، جیسے کہ اگلی حدیث میں اس کا ذکر آرہا ہے۔
وہ بھی ایک قبیح خصلت ہے، اگر اللہ تعالی معاف فرمائے تو اس سزا بھی جنت سے محرومی ہے اور ایمان خواہ معمولی ہی ہو اس کی جزا جنت ہے، اگر گناہوں پر سزا ہوئی تو ان شااللہ بالآخر بفضلہ تعالی جنت میں داخل کرلیا جائے گا۔
گویا مومن جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔
کا مطلب ہمیشہ کے لئے داخل نہ ہوہے عارضی طور پر بطور سزا داخل ہونا ممکن ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4091   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث59  
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا، اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں نہیں داخل ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 59]
اردو حاشہ:
(1)
تکبر ایک بہت مذموم وصف ہے۔
تکبر کی حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے:
(اَلْكِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (صحيح مسلم، الايمان، باب تحريم الكبر و بيانه، حديث: 91)
تکبر کا مطلب حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔

(2)
اگر تکبر کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ایمان لانے سے انکار کیا جائے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے کیونکہ یہ ایمان کے سراسر منافی ہے اور اگر تکبر اس قسم کا ہے کہ کوئی شخص مال و دولت، حسن و جمال، جاہ و منصب وغیرہ کی وجہ سے دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق بات ماننے سے انکار کرتا ہے، تو یہ تکبر بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم کی سزا بھگتے بغیر جنت میں نہیں جا سکے گا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اسے معاف کر دے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 59   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4173  
´تکبر اور گھمنڈ سے بے زاری اور تواضع کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہیں داخل ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر و غرور ہو گا اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4173]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سب سے بڑا تکبر حق کا انکار ہے۔
دوسروں کی خوبیوں کا انکار اور ان کی تحقیر بھی تکبر ہے۔
ارشاد نبوی:
(اَلْكِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (صحيح مسلم، الإيمان، باب تحريم الكبر وبيانه، حديث: 19)
 تکبر کا مطلب حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھناہے۔

(2)
تکبر کی معمولی مقدار بھی اللہ کی ناراضی کا باعث ہے۔

(3)
جو شخص تکبر کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یا اللہ کے احکامات پر ایمان لانے سے انکار کرے گا وہ جہنمی ہے۔
اگر کوئی شخص مال ودولت، حسن طاقت، علم نسب وغیرہ کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے تو یہ بھی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4173   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1998  
´تکبر اور گھمنڈ کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو گا ۱؎ اور جہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مراد جنت میں پہلے پہل جانے کا ہے،
ورنہ ہر موحد سزا بھگتنے بعد إن شاء اللہ جنت میں جائے گا۔

2؎:
مراد کفار کی طرح جہنم میں داخل ہونے کا ہے،
یعنی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں نہیں داخل ہوگا،
بلکہ اخیر میں سزا کاٹ کر جنت میں چلا جائے گا،
إن شاء اللہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1998   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 265  
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ایک شخص نے پوچھا: آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں، آپؐ نے فرمایا: اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، کبر (خود پسندی) حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:265]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کبریائی اور بڑائی خالق کائنات کےلیے زیبا ہے،
کسی انسان کےلیے روا نہیں،
کیونکہ انسان محکوم اور پابند ہے،
آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔
(یعنی دین سے آزاد اور اسلام سے بالاتر نہیں)
لیکن رہن سہن،
لباس اور استعمال کی چیزوں میں اپنی حیثیت کے مطابق حلال کمائی سے،
اعلیٰ معیار اختیار کرنا،
صاف ستھرا رہنا یہ خود پسندی نہیں ہے،
خود پسندی اور تکبر یہ ہے کہ انسان ہمچوں مادیگرے نیست "أنا خیر منه" کا شکار ہو کر آزادی وخود مختاری کا اظہار کرتے ہوئے حق کا انکار کرے،
کسی کو اپنے ہم پلہ نہ سمجھے،
بلکہ لوگوں کو حقیر وذلیل تصور کرے،
اس بد خصلت کی خاصیت او رتاثیر یہی ہے کہ ایسا آدمی دوزخ میں جائے،
کیونکہ وہ کسی کے حق کو تسلیم ہی نہیں کرتا،
تو وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کیسے کرے گا کہ جنت میں جاسکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 265   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 266  
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہے آگ میں داخل نہیں ہوگا، اور نہ کوئی ایسا انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کِبر ہے جنّت میں داخل ہو گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:266]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایمان کی خاصیت اور تاثیر جنت میں دخول ہے اور تکبر وگھمنڈ کا خاصہ آگ ہے،
اس لیے جب یہ بے آمیز ہوں،
یعنی خالص ہوں،
کسی مخالف ومتضاد چیز کا ان میں اختلاط نہ تو ان کا خاصہ کسی روکاوٹ کے بغیر ظاہر ہوگا۔
لیکن اگر ایمان اور کبر کی آمیزش ہوجائے تو ان کا ذاتی تقاضا پوری طرح ظاہر نہیں ہوگا،
ایمان والا ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا اور غرور وتکبر کی بنا پر فوری طور پرجنت میں نہیں جائے گا،
تکبر کی آمیزش کی بنا پر دوزخ میں سے ہوکر جنت میں داخل ہوگا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 266   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.