سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
26. باب مَا جَاءَ فِي إِصْلاَحِ ذَاتِ الْبَيْنِ
26. باب: آپس میں صلح کرانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Rectifying Manners
حدیث نمبر: 1938
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن امه ام كلثوم بنت عقبة، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ليس بالكاذب من اصلح بين الناس فقال خيرا او نمى خيرا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام کلثوم بنت عقبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وضاحت:
۱؎: لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا، ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 2 (2692)، صحیح مسلم/البر والصلة 37 (2605)، سنن ابی داود/ الأدب 58 (4920) (تحفة الأشراف: 18353)، و مسند احمد (6/404) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (1196)، الصحيحة (545)

   صحيح البخاري2692أم كلثوم بنت عقبةليس الكذاب الذي يصلح بين الناس فينمي خيرا أو يقول خيرا
   صحيح مسلم6633أم كلثوم بنت عقبةليس الكذاب الذي يصلح بين الناس ويقول خيرا وينمي خيرا
   جامع الترمذي1938أم كلثوم بنت عقبةليس بالكاذب من أصلح بين الناس فقال خيرا أو نمى خيرا
   سنن أبي داود4921أم كلثوم بنت عقبةلا أعده كاذبا الرجل يصلح بين الناس يقول القول ولا يريد به إلا الإصلاح الرجل يقول في الحرب الرجل يحدث امرأته والمرأة تحدث زوجها
   سنن أبي داود4920أم كلثوم بنت عقبةلم يكذب من نمى بين اثنين ليصلح
   المعجم الصغير للطبراني661أم كلثوم بنت عقبةلا أعدهن كذبا الرجل يصلح بين الناس يريد به الإصلاح الرجل يقول القول في الحرب الرجل يحدث امرأته والمرأة تحدث زوجها
   المعجم الصغير للطبراني674أم كلثوم بنت عقبةليس بكذاب من أصلح بين الناس فقال خيرا أو نمى خيرا
   مسندالحميدي331أم كلثوم بنت عقبةلا فلا يحب الله الكذب

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1938 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1938  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لوگوں کے درمیان صلح ومصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے،
یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے،
مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ،
اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا،
ایسا شخص جھوٹانہیں ہے،
بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے،
اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1938   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4921  
´میل جول اور مصالحت کرانے کا بیان۔`
ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4921]
فوائد ومسائل:

مسلمان بھائیوں میں صلح اور اصلاح کے لیئے کوئی بات بنانی پڑ جائے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ جھوٹ معیوب نہیں ہوتا۔


میاں بیوی اگر کسی ناراضی کو دور کرنے کے لیئے یا لفظی طور پر ایک دوسرے کو محبت جتلانے کے لیئے کوئی بات کہیں تو جائز ہے تاکہ انکی عائلی زندگی مسرت بھری رہے۔


دشمن کو دھوکہ دینا بھی جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4921   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:331  
331- عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل کرے، مجھے کوئی گناہ ہوگا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! لیکن اللہ جھوٹ کو پسند نہیں کرتا۔ اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں، یا خوش کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہیں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:331]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بیوی کے ساتھ مصلحت کی خاطر جھوٹ بولنا درست ہے، اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ یہ بات تجر بہ شدہ ہے کہ بعض معاملات میں بطور اصلاح بیوی کے ساتھ جھوٹ بولنا پڑتا ہے تو یہ جھوٹ درست ہے۔ اسی طرح دو آدمیوں کے درمیان صلح کروانے کی خاطر بھی جھوٹ بولنا درست ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6633  
حضرت اُم کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو پہلے ہجرت کرنے والیوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں سے ہیں بیان کرتی ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہے، اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے۔"ابن شہاب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں لوگ جس کو جھوٹ کہتے ہیں میں نے اس کی صرف تین مواقع پر رخصت سنی ہے، جنگ و جہاد لوگوں کے درمیان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6633]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ينمي خيرا:
ایک فریق کی دوسرے فریق تک اچھی اور بہتر بات پہنچاتا ہے،
تاکہ ان کے درمیان صلح کروا سکے،
اويقول خيرا:
اور اچھا اثر ڈالنے والی بات بیان کرتا ہے اور بری بات سے خاموشی اختیار کرتا ہے،
وہ نقل نہیں کرتا۔
فوائد ومسائل:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں یا دو گروہوں میں سخت نزاع اور رنجش ہے،
ہر فریق دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتا ہے،
ان میں بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں،
جو باہمی اختلاف اور نزاع کو ختم کرنے یا کم از کم،
کم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں،
ایسی صورت میں اگر کوئی نیک نیت اور مخلص انسان دونوں فریقوں میں صلح کرانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو خیر اندیشی کی باتیں پہنچاتا ہے،
جن سے عداوت و اختلاف کی آگ ٹھنڈی ہو سکے اور خوش گمانی اور مصالحت کی فضا پیدا ہو سکے اور ایک دوسرے کی مخالفت و عداوت میں کہی گئی باتیں چھپا لے تو یہ اچھی اور بہتر بات ہے،
اسی طرح جنگ و جدال میں توریہ و تعریض سے کام لیا جا سکتا ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے محبت و پیار کے اظہار میں مبالغہ سے کام لے سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے اچھے اچھے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں تو یہ جھوٹ نہیں ہے،
تفصیل کتاب الجہاد میں،
باب جواز الخداع فی الحرب "لڑائی میں دھوکا کا جواز" میں گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6633   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2692  
2692. حضرت ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2692]
حدیث حاشیہ:
مثلاً دو آدمیوں میں رنج ہوا اور یہ ملاپ کرانے کی نیت سے کہے کہ وہ تو آپ کے خیرخواہ ہیں یا آپ کی تعریف کرتے ہیں۔
قسطلانی ؒنے کہا ایسے جھوٹ کی رخصت ہے جس سے بہت فائدے کی امید ہو۔
امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔
ایک تو لڑائی میں، دوسرے مسلمانوں میں آپس میں میل جول کرانے میں، تیسرے اپنی بیوی سے۔
بعضوں نے اور مقاموں کو بھی جہاں کوئی مصلحت ہو، انہیں پر قیاس کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا جب منع ہے جب اس سے نقصان پیدا ہو یا اس میں کوئی مصلحت نہ ہو، بعضوں نے کہا جھوٹ ہر حال میں منع ہے اور ایسے مقاموں میں توریہ کرنا بہتر ہے مثلاً کوئی ظالم سے یوں کہے میں تو آپ کے لیے دعا کیا کرتا ہوں اور مطلب یہ رکھے اللهم اغفر للمسلمین کہا کرتا ہوں، اور ضرورت کے وقت تو جھوٹ بولنا بالاتفاق جائز ہے۔
ضرورت سے مذکورہ صلح صفائی کی ضرورت مراد ہے، یا کسی ظالم کے ظلم سے بچنے یا کسی کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا، حدیث إنما الأعمالُ بالنیاتِ کا یہ بھی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2692   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2692  
2692. حضرت ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2692]
حدیث حاشیہ:
چونکہ اس جھوٹ سے مقصود شر اور فساد کو دفع کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسے جھوٹ شمار نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ حقیقت میں جھوٹ ہی ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
تین موقعوں پر خلاف واقعہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں:
ایک جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا تاکہ دشمن دھوکے میں آ جائے، دوسرا صلح کراتے وقت خلاف واقعہ بات کہنا اور تیسرا خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا۔
(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6633(2605)
ان کے علاوہ صریح جھوٹ ناجائز اور باعث لعنت ہے۔
(فتح الباري: 369/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2692   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.