سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
17. باب مَا جَاءَ فِي النَّصِيحَةِ
17. باب: خیر خواہی اور بھلائی کرنے کا بیان۔
Chapter: (What Has Been Related) About An-Nasihah
حدیث نمبر: 1926
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا صفوان بن عيسى، عن محمد بن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدين النصيحة " ثلاث مرار، قالوا: يا رسول الله، لمن؟ قال: " لله، ولكتابه، ولائمة المسلمين، وعامتهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن ابن عمر، وتميم الداري، وجرير، وحكيم بن ابي يزيد، عن ابيه، وثوبان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدِّينُ النَّصِيحَةُ " ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَنْ؟ قَالَ: " لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَجَرِيرٍ، وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، وَثَوْبَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین سراپا خیر خواہی ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، تمیم داری، جریر، «حكيم بن أبي يزيد عن أبيه» اور ثوبان رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

وضاحت:
۱؎: اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی ذات پر صحیح طور پر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے، ورنہ اللہ عزوجل کی خیر خواہی کون کر سکتا ہے، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر کرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پابند ہونا، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیا جائے، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہو تو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا و آخرت سے متعلق جو بھی خیر اور بھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے، اور شر و فساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اور برائی سے روکا جائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12863) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (26)، غاية المرام (332)

   جامع الترمذي1926عبد الرحمن بن صخرالدين النصيحة لله ولكتابه ولأئمة المسلمين وعامتهم
   سنن النسائى الصغرى4204عبد الرحمن بن صخرالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   سنن النسائى الصغرى4205عبد الرحمن بن صخرالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1926 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1926  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اوراس کی ذات پر صحیح طورپر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیرخواہی ہے،
جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے،
ورنہ اللہ عزوجل کی خیرخواہی کون کرسکتا ہے،
اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیرخواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے،
اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے،
اس میں غوروفکراور تدبرکرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا،
اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے،
رسول اللہﷺ کی سنتوں کا پابند ہونا،
اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے،
مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے،
سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیاجائے،
سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہوتو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے،
عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا وآخرت سے متعلق جو بھی خیراوربھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے،
اور شروفساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے،
اور برائی سے روکاجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1926   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.