سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: فضائل جہاد
The Book on Virtues of Jihad
11. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْىِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
11. باب: اللہ کی راہ (جہاد) میں تیر پھینکنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1637
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي حسين، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، والممد به، وقال: ارموا واركبوا، ولان ترموا احب إلي من ان تركبوا، كل ما يلهو به الرجل المسلم باطل إلا رميه بقوسه، وتاديبه فرسه، وملاعبته اهله، فإنهن من الحق ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةً الْجَنَّةَ، صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَالْمُمِدَّ بِهِ، وَقَالَ: ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ ".
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو، آپ نے فرمایا: تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے درست ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18914) (ضعیف) (اس کی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں، لیکن ”كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ“ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618)، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267)، ضعيف أبي داود (540 / 2513)، الصحيحة (315) //

   جامع الترمذي1637عقبة بن عامرالله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة صانعه يحتسب في صنعته الخير والرامي به والممد به ارموا واركبوا ولأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا كل ما يلهو به الرجل المسلم باطل إلا رميه بقوسه وتأديبه فرسه وملاعبته أهله فإنهن من الحق
   سنن أبي داود2513عقبة بن عامرالله يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة صانعه يحتسب في صنعته الخير والرامي به ومنبله ارموا واركبوا وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا ليس من اللهو إلا ثلاث تأديب الرجل فرسه وملاعبته أهله ورميه بقوسه ونبله من ترك الرمي بعد ما علمه رغب
   سنن ابن ماجه2811عقبة بن عامرالله ليدخل بالسهم الواحد الثلاثة الجنة صانعه يحتسب في صنعته الخير والرامي به والممد به
   سنن ابن ماجه2811عقبة بن عامرارموا واركبوا وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا كل ما يلهو به المرء المسلم باطل إلا رميه بقوسه وتأديبه فرسه وملاعبته امرأته فإنهن من الحق
   سنن النسائى الصغرى3148عقبة بن عامرالله يدخل ثلاثة نفر الجنة بالسهم الواحد صانعه يحتسب في صنعه الخير والرامي به ومنبله
   سنن النسائى الصغرى3608عقبة بن عامرالله يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة صانعه يحتسب في صنعه الخير الرامي به ومنبله ارموا واركبوا وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1637 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1637  
اردو حاشہ:
نوٹ:
1- (پہلی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں،
لیکن كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1637   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3148  
´اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر اندازی کرنے والے کے ثواب کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعہ تین طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (پہلا) تیر کا بنانے والا جس نے اچھی نیت سے تیر تیار کیا ہو، (دوسرا) تیر کا چلانے والا (تیسرا) تیر اٹھا اٹھا کر پکڑانے اور چلانے کے لیے دینے والا (تینوں ہی جنت میں جائیں گے)۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3148]
اردو حاشہ:
تیر پکڑنے والا عربی میں لفظ مُنَبِّلْ استعمال کیا گیا ہے۔اس کے معنی تیر مہیا کرنے والا بھی ہو سکتے ہیں‘ یعنی اپنے مال سے خرید کر دینے والا یادورگرنے والا تیرلے کر آنے والا۔ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کا نیکی میں ذرہ بھی حصہ ہے‘ اسے اجروثواب ضرور ملے گا۔ اپنے اپنے حصے کے مطابق۔ کوئی شخص اجر سے محروم نہیں رہے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3148   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3608  
´گھوڑے کو سدھانے و سکھانے کا بیان۔`
خالد بن یزید جہنی کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہمارے قریب سے گزرا کرتے تھے، کہتے تھے: اے خالد! ہمارے ساتھ آؤ، چل کر تیر اندازی کرتے ہیں، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں سستی سے ان کے ساتھ نکلنے میں دیر کر دی تو انہوں نے آواز لگائی: خالد! میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی ایک بات بتاتا ہوں، چنانچہ میں ان کے پاس گیا۔ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعے تی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3608]
اردو حاشہ:
(1) پسندیدہ ہے کیونکہ تیر چلانا نہ آتا ہو تو گھوڑ سواری بے فائدہ ہے‘ جبکہ تیر اندازی اکیلی بھی مفید ہے۔
(2) مستحب کھیل یعنی ان میں ثواب حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے‘ جبکہ دوسرے کھیل صرف جسمانی تفریح کا فائدہ دیتے ہیں اور اس جسمانی تفریح کا کیا فائدہ جو کسی کام نہ آئے؟ اگر جسمانی تفریح اور ورزش جہاد وغیرہ میں مفید ہوں تو ثواب کا موجب ہیں۔
(3) ناشکری کی البتہ اگر اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر چھوڑا تو کوئی حرج نہیں۔
(4) محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو حسن قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے خالد بن یزید کی جہالت کی بنا پر اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے‘ تاہم تین کھیل مستحب ہیں والا حصہ دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے‘ (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: 30/13 وضعیف سنن النسائي‘ رقم: 3580)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3608   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2513  
´تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے: ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے، دوسرے اس کے چلانے والے کو، اور تیسرے اٹھا کر دینے والے کو، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو، اور تمہارا تیر اندازی کرنا، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے: ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2513]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی کے نذدیک یہ روایت ضعیف ہے۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
جس کی وجہ سے حدیث میں مذکورہ اعمال کی اباحت اور فضیلت ثابت ہے۔
لہذا اگر کسی تفریح کا پروگرام ہو و انہی مذکورہ بالا تفریحات میں سے کسی کو ترجیح دی جائے تاکہ جسمانی قوت اور تفریح کے ساتھ ساتھ عند اللہ اجر وثواب کا بھی مستحق ٹھہرے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2811  
´اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل: 1۔
مسلمان کو تفریح کے طور پر ایسے کام کرنے چاہییں جن سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔
تفریح برائے تفریح کا نظریہ غلط ہے۔ 2۔
تیر اندازی کی مشق سے ذاتی دفاع کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے اور دین کے لیے جنگ کرنے کا بھی اس لیے یہ جائز تفریح ہے۔

(3)
جدید دور میں جو اسلحہ کفار کے خلاف جنگ میں استعمال ہوسکتا ہےاس کی تربیت حاصل کرنا تیر اندازی کی مشق کے حکم میں ہے۔

(4)
گھوڑے کو تربیت دینے کا مقصد جنگ میں اس سے کام لینا ہے اس لیے مختلف گاڑیوں، ٹینکوں اور طیاروں وغیرہ کے چلانےاور اڑانے کی تربیت اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کرنا اور سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔

(5)
بیوی سے دل لگی کرنا خود کو اوراس کو گناہ سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
اور پاک دامنی اسلامی معاشرے کی مطلوب اشیاء میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اخلاق وکردار کی حفاظت بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح ملکی سرحدوں کا دفاع۔
اس کے علاوہ بیوی سے نیک اولاد کا حصول اسلامی سلطنت کے دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کافر ممالک مسلمانوں کو آبادی کم کرنے کا سبق دیتے ہیں اور خود اپنی آبادیاں بڑھانے میں کوشاں ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2811   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2811  
´اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: ثواب کی نیت سے اس کے بنانے والے کو، چلانے والے کو، اور ترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیر اندازی کرو، اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندازی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل باطل ہے سوائے تیر اندازی، گھوڑے کے سدھانے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل: 1۔
مسلمان کو تفریح کے طور پر ایسے کام کرنے چاہییں جن سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔
تفریح برائے تفریح کا نظریہ غلط ہے۔ 2۔
تیر اندازی کی مشق سے ذاتی دفاع کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے اور دین کے لیے جنگ کرنے کا بھی اس لیے یہ جائز تفریح ہے۔

(3)
جدید دور میں جو اسلحہ کفار کے خلاف جنگ میں استعمال ہوسکتا ہےاس کی تربیت حاصل کرنا تیر اندازی کی مشق کے حکم میں ہے۔

(4)
گھوڑے کو تربیت دینے کا مقصد جنگ میں اس سے کام لینا ہے اس لیے مختلف گاڑیوں، ٹینکوں اور طیاروں وغیرہ کے چلانےاور اڑانے کی تربیت اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کرنا اور سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔

(5)
بیوی سے دل لگی کرنا خود کو اوراس کو گناہ سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
اور پاک دامنی اسلامی معاشرے کی مطلوب اشیاء میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اخلاق وکردار کی حفاظت بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح ملکی سرحدوں کا دفاع۔
اس کے علاوہ بیوی سے نیک اولاد کا حصول اسلامی سلطنت کے دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کافر ممالک مسلمانوں کو آبادی کم کرنے کا سبق دیتے ہیں اور خود اپنی آبادیاں بڑھانے میں کوشاں ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2811   

حدیث نمبر: 1637M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلام، عن عبد الله بن الازرق، عن عقبة بن عامر الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن كعب بن مرة، وعمرو بن عبسة، وعبد الله بن عمرو، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَزْرَقِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ، وَعَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں کعب بن مرہ، عمرو بن عبسہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 24 (2513)، سنن النسائی/الجہاد 27 (3148)، والخیل 8 (3608)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 19 (2811)، (تحفة الأشراف: 9922)، و مسند احمد (4/146)، سنن الدارمی/الجہاد 14 (2449) (حسن) (اس کے راوی عبد اللہ بن زید الازرق لین الحدیث (مقبول) ہیں، مگر ان کی متابعت خالد بن زید یا یزید نے کی ہے (عند النسائی وابی داود) اس لیے یہ حدیث ”حسن لغیرہ“ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو: الصحیحة: 315)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2811) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (618)، وفي صحيح ابن ماجة برقم (2267)، ضعيف أبي داود (540 / 2513)، الصحيحة (315) //


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.