(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن عيسى بن عاصم، عن زر، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الطيرة من الشرك وما منا، ولكن الله يذهبه بالتوكل "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي هريرة، وحابس التميمي، وعائشة، وابن عمر، وسعد، وهذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث سلمة بن كهيل، وروى شعبة ايضا، عن سلمة هذا الحديث، قال: سمعت محمد بن إسماعيل، يقول: كان سليمان بن حرب، يقول في هذا الحديث: " وما منا ولكن الله يذهبه بالتوكل "، قال سليمان: هذا عندي قول عبد الله بن مسعود: " وما منا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الطِّيَرَةُ مِنَ الشِّرْكِ وَمَا مِنَّا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحَابِسٍ التَّمِيمِيِّ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَسَعْدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ أَيْضًا، عَنْ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: كَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: " وَمَا مِنَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ "، قَالَ سُلَيْمَانُ: هَذَا عِنْدِي قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: " وَمَا مِنَّا ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدفالی شرک ہے“۱؎۔ (ابن مسعود کہتے ہیں) ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس کا وہم و خیال نہ پیدا ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اس وہم و خیال کو توکل کی وجہ سے زائل کر دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- شعبہ نے بھی سلمہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان بن حرب اس حدیث میں «وما منا ولكن الله يذهبه بالتوكل» کی بابت کہتے تھے کہ «وما منا» میرے نزدیک عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا قول ہے، ۴- اس باب میں ابوہریرہ، حابس تمیمی، عائشہ، ابن عمر اور سعد رضی الله عنہم سے بھی روایتیں ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ اعتقاد رکھنا کہ «طیرہ» یعنی بدفالی نفع یا نقصان پہنچانے میں موثر ہے شرک ہے، اور اس عقیدے کے ساتھ اس پر عمل کرنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اس لیے اس طرح کا خیال آنے پر «لا إله إلا الله» پڑھنا بہتر ہو گا، کیونکہ جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اسے پڑھنے اور اللہ پر توکل کرنے کی وجہ سے اللہ یہ خیال اس سے دور فرما دے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب 24 (3910)، سنن ابن ماجہ/الطب 43 (3538)، (تحفة الأشراف: 9207) (صحیح)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1614
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ اعتقاد رکھنا کہ طیرہ یعنی بدفالی نفع یا نقصان پہنچانے میں موثر ہے شرک ہے، اور اس عقیدے کے ساتھ اس پر عمل کرنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اس لیے اس طرح کا خیال آنے پر ”لا إله إلا الله“ پڑھنا بہتر ہوگا، کیوں کہ جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اسے پڑھنے اور اللہ پر توکل کرنے کی وجہ سے اللہ یہ خیال اس سے دور فرما دے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1614
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3910
´بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”بدشگونی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ اس کو توکل سے دور فرما دیتا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3910]
فوائد ومسائل: ذہن میں بے ساختہ اگر کسی بد شگونی کا کو ئی وہم آئے تو یہ معاف ہے چاہیئے کہ بندہ اس کے خلاف کرتے ہوئے اللہ عزوجل پر توکل کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3910
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3538
´نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدشگونی شرک ہے ۱؎ اور ہم میں سے جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے یہ خیال دور کر دے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3538]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: اگر کسی موقع پر دل میں بدشگونی کا تصور پیدا ہوجائے۔ تو اس کا علاج اللہ پر توکل ہے یعنی یہ حقیقت ذہن میں لائی جائے کہ خیر وشر کا مالک اللہ ہے۔ یہ پرندے او دوسری مخلوقات کسی مصیبت کاباعث نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3538