تخریج: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب النهي عن قتل من اعتصم بالسجود، حديث:2645، والترمذي، السير، حديث:1604، والنسائي، القسامة، حديث:4784 من حديث قيس بن أبي حازم مرسلًا.* أبو معاوية الضرير عنعن وله طرق ضعيفة كلها.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر ارواء الغلیل میں تفصیلاً بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(إرواء الغلیل: ۵ /۲۹.۳۳‘ رقم:۱۲۰۷) 2. مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہو جائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں۔
اس فعل پر انھیں مجرم قرار نہیں دیا جائے گا۔
3.جب حالات کشیدہ ہوں تو مشرکین کے علاقوں سے ہجرت کرنا واجب ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت جریر بَجَلی رضی اللہ عنہ» ان کی کنیت ابوعمرو ہے۔
سلسلۂنسب یوں ہے: جریر بن عبداللہ بن جابر بجلی۔
بجلی کے
”با
“ اور
”جیم
“دونوں پر فتحہ ہے۔
۱۰ ہجری میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آمد پر ان کے اعزاز کے لیے کپڑا بچھایا تھا۔
انھیں ذوالخلصہ بت کو منہدم کرنے کے لیے بھیجا تو انھوں نے اسے گرا دیا۔
آپ کے زمانے میں انھیں یمن پر عامل مقرر کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا اس روز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے دیدار سے کبھی محروم نہیں رکھا اور مجھے ہمیشہ مسکراکر دیکھا۔
ان کی جوتی کا سائز ایک ہاتھ کے برابر تھا۔
مدائن کی فتح کے موقع پر حاضر تھے۔
اور جنگ قادسیہ میں انھیں فوج کے میمنہ پر متعین کیا گیا۔
انھیں اس امت کے یوسف کا لقب دیا گیا۔
۵۲ یا ۵۴ ہجری میں وفات پائی۔