(مرفوع) حدثني يحيى بن موسى , حدثنا ابو بكر الحنفي، حدثنا الضحاك بن عثمان , حدثني عمارة بن عبد الله , قال: سمعت عطاء بن يسار , يقول: سالت ابا ايوب الانصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: " كانالرجل يضحي بالشاة عنه , وعن اهل بيته , فياكلون , ويطعمون , حتى تباهى الناس , فصارت كما ترى " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وعمارة بن عبد الله هو: مدني , وقد روى عنه مالك بن انس , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول احمد , وإسحاق: " واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم انه ضحى بكبش , فقال: هذا عمن لم يضح من امتي " , وقال بعض اهل العلم: لا تجزي الشاة إلا عن نفس واحدة , وهو قول عبد الله بن المبارك: وغيره من اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ , حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ , يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: " كَانَالرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ , وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ , فَيَأْكُلُونَ , وَيُطْعِمُونَ , حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ , فَصَارَتْ كَمَا تَرَى " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: مَدَنِيٌّ , وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق: " وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍ , فَقَالَ: هَذَا عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي " , وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا تُجْزِي الشَّاةُ إِلَّا عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ , وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو دیکھ رہے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا: ”یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے“، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی، عبداللہ بن مبارک اور دوسرے اہل علم کا یہی قول ہے (لیکن راجح پہلا قول ہے)۔
وضاحت: ۱؎: یعنی لوگ قربانی کرنے میں فخر و مباہات سے کام لینے لگے ہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3147
´سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کا بیان۔` عطا بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3147]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جن لوگوں کا کھانا پینا اور خرچ وغیرہ مشترک ہو وہ ایک گھر کے افراد ہیں۔ ان کی طرف سے ایک ہی قربانی دینا یا گائے یا اونٹ کا ایک حصہ قربانی دینا کافی ہے۔
(2) ایک سے زیادہ قربانیاں کرنا جائز ہیں لیکن تفاخر اور مقابلہ بازی کے انداز سےزیادہ جانور یا قیمتی جانور قربان کرنا قربانی کے اصل مقصد کو ختم کردیتا ہے اس صورت میں کوئی ثواب نہیں ہوتا۔
(3) کسی بھی نیکی میں نیت کا صحیح ہونا اور دل کا خلوص لازمی شرط ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3147