(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد السلام بن حرب الملائي، عن الاعمش، عن انس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا اراد الحاجة لم يرفع ثوبه حتى يدنو من الارض ". قال ابو عيسى: هكذا روى محمد بن ربيعة، عن الاعمش، عن انس هذا الحديث، وروى وكيع , وابو يحيى الحماني، عن الاعمش، قال: قال ابن عمر: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد الحاجة لم يرفع ثوبه حتى يدنو من الارض ". وكلا الحديثين مرسل، ويقال: لم يسمع الاعمش من انس ولا من احد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقد نظر إلى انس بن مالك، قال: رايته يصلي، فذكر عنه حكاية في الصلاة، والاعمش اسمه: سليمان بن مهران ابو محمد الكاهلي، وهو مولى لهم، قال الاعمش: كان ابي حميلا فورثه مسروق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلَائِيُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنَ الْأَرْضِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى وَكِيعٌ , وَأَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنَ الْأَرْضِ ". وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُرْسَلٌ، وَيُقَالُ: لَمْ يَسْمَعْ الْأَعْمَشُ مِنْ أَنَسٍ وَلَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ نَظَرَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، فَذَكَرَ عَنْهُ حِكَايَةً فِي الصَّلَاةِ، وَالْأَعْمَشُ اسْمُهُ: سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْكَاهِلِيُّ، وَهُوَ مَوْلًى لَهُمْ، قَالَ الْأَعْمَشُ: كَانَ أَبِي حَمِيلًا فَوَرَّثَهُ مَسْرُوقٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہو جاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔ دوسری سند میں اعمش سے روایت ہے، ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہو جاتے نہیں اٹھاتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ دونوں احادیث مرسل ہیں، اس لیے کہ کہا جاتا ہے: دونوں احادیث کے راوی سلیمان بن مہران الأعمش نے نہ ہی تو انس بن مالک رضی الله عنہ سے سماعت کی ہے اور نہ ہی کسی اور صحابی سے، صرف اتنا ہے کہ انس کو صرف انہوں نے دیکھا ہے، اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انہیں نماز پڑھتے دیکھا ہے پھر ان کی نماز کی کیفیت بیان کی۔
وضاحت: ۱؎: یہاں مرسل سے ”منقطع“ مراد ہے، اس کی تشریح خود امام ترمذی نے کر دی ہے کہ اعمش کا انس رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، ویسے عام اصطلاحی مرسل: وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد والا راوی ساقط ہو، ایسی روایت ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں اتصال سند مفقود ہوتا ہے جو صحیح حدیث کی ایک لازمی شرط ہے، اسی طرح محذوف راوی کا کوئی تعین نہیں ہوتا، ممکن ہے وہ کوئی غیر صحابی ہو، اس صورت میں اس کے ضعیف ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ اور انقطاع کا مطلب یہ ہے کہ سند میں کوئی راوی چھوٹا ہوا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 14
اردو حاشہ: 1؎: یہاں مرسل سے ”منقطع“ مراد ہے، اس کی تشریح خود امام ترمذیؒ نے کردی ہے کہ اعمش کا انس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، ویسے عام اصطلاحی مرسل: وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد والا راوی ساقط ہو، ا یسی روایت ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں اتصالِ سند مفقود ہوتا ہے جو صحیح حدیث کی ایک لازمی شرط ہے، اسی طرح محذوف راوی کا کوئی تعین نہیں ہوتا، ممکن ہے وہ کوئی غیر صحابی ہو، اس صورت میں اس کے ضعیف ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ اور انقطاع کا مطلب یہ ہے کہ سند میں کوئی راوی چھوٹا ہوا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 14
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 14
´قضائے حاجت کے لیے ستر کس وقت کھولے` «. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ حَاجَةً لا يَرْفَعُ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنَ الْأَرْضِ . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کا ارادہ فرماتے تو اپنا کپڑا (شرمگاہ سے اس وقت تک) نہ اٹھاتے جب تک کہ زمین سے قریب نہ ہو جاتے تھے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 14]
فوائد و مسائل یہ روایت ضعیف ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ انسان کو علیحدگی میں بھی عریاں (ننگا) ہونے سے ازحد احتیاط کرنی چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 14