(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن حذيفة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اتى سباطة قوم فبال عليها قائما، فاتيته بوضوء فذهبت لاتاخر عنه، فدعاني حتى كنت عند عقبيه، فتوضا ومسح على خفيه ". قال ابو عيسى: وسمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يحدث بهذا الحديث , عن الاعمش، ثم قال وكيع: هذا اصح حديث روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في المسح , وسمعت ابا عمار الحسين بن حريث، يقول: سمعت وكيعا فذكر نحوه. قال ابو عيسى: وهكذا روى منصور , وعبيدة الضبي، عن ابي وائل، عن حذيفة مثل رواية الاعمش، وروى حماد بن ابي سليمان , وعاصم بن بهدلة، عن ابي وائل، عن المغيرة بن شعبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابي وائل، عن حذيفة اصح، وقد رخص قوم من اهل العلم في البول قائما. قال ابو عيسى: وعبيدة بن عمرو السلماني روى عنه إبراهيم النخعي , وعبيدة من كبار التابعين، يروى عن عبيدة، انه قال: اسلمت قبل وفاة النبي صلى الله عليه وسلم بسنتين، وعبيدة الضبي صاحب إبراهيم هو عبيدة بن معتب الضبي، ويكنى: ابا عبد الكريم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ عَلَيْهَا قَائِمًا، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوءٍ فَذَهَبْتُ لِأَتَأَخَّرَ عَنْهُ، فَدَعَانِي حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ , عَنْ الْأَعْمَشِ، ثُمَّ قَالَ وَكِيعٌ: هَذَا أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْحِ , وسَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قال أبو عيسى: وَهَكَذَا رَوَى مَنْصُورٌ , وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الْأَعْمَشِ، وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ , وَعَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَصَحُّ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا. قال أبو عيسى: وَعَبِيدَةُ بْنُ عَمْرٍو السَّلْمَانِيُّ رَوَى عَنْهُ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ , وَعَبِيدَةُ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، يُرْوَى عَنْ عَبِيدَةَ، أَنَّهُ قَالَ: أَسْلَمْتُ قَبْلَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَنَتَيْنِ، وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ صَاحِبُ إِبْرَاهِيمَ هُوَ عُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ، وَيُكْنَى: أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ.
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا، اسے رکھ کر میں پیچھے ہٹنے لگا، تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا، میں (آ کر) آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑا ہو گیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع کہتے ہیں: یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ۲- یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے ۱؎ ابووائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے) زیادہ صحیح ہے ۲؎، ۳- محدثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی حماد اور عاصم نے بھی ابووائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابووائل نے حذیفہ کے علاوہ ”مغیرہ بن شعبہ“ رضی الله عنہ سے بھی روایت کیا ہے، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دو دو راویوں سے روایت ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابووائل نے دونوں صحابیوں سے سنا ہو۔
۲؎: کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عام والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے، (معاملہ صرف ”زیادہ صحیح“ ہونے کا ہے)۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 13
اردو حاشہ: 1؎: یعنی حماد اور عاصم نے بھی ابو وائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابو وائل نے حذیفہ کے علاوہ ”مغیرہ بن شعبہ“ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دو دو راویوں سے روایت کی ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابو وائل نے دونوں صحابیوں سے سنا ہو۔
2؎: کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عاصم والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے، (معاملہ صرف ”زیادہ صحیح“ ہونے کا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 13
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 23
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان` «. . . عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبَاطَةَ قَوْمٍ، فَبَالَ قَائِمًا ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ . . .» ”. . . حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑے خانہ (گھور) پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎ پھر پانی منگوایا (اور وضو کیا) اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 23]
فوائد و مسائل: ➊ معلوم ہوا کہ ضرورت کے موقع پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے بشرطیکہ چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر حضرت عمر، حضرت علی، ابن عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے لیکن سنت یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیشاب کرے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ” جو شخص تمہیں یہ بیان کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے تھے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔“[جامع الترمذي، الطهارة، باب ما جاء فى النهي عن البول قائما، حديث: 12، وسنن النسائي، الطهارة، حديث: 29] امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہی ہے اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے میں پردہ پوشی بھی زیادہ ہے اور آدمی پیشاب کے چھینٹوں سے بھی زیادہ محفوظ رہتا ہے۔ آج کل ماڈرن قسم کے لوگ، جو مغرب کی نقالی میں حد سے بڑھ چکے ہیں، ہوٹلوں اور پارکوں میں کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں، حالانکہ ہر معاملے میں غیروں کی نقالی کرنا سراسر حدیث رسول کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور انگریز کی اور غیر مسلموں کی نقالی سے بچائے۔ ➋ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض حالات میں لوگوں کے قریب بھی پیشاب کیا جا سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 23
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 18
´قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانے کی رخصت کا بیان۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 18]
18۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انہیں کہا: ”اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔“ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہو گیا۔ ➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ [السنن الکبریٰ، للبیھقی: 101/1] یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: 274، مع شرح النووي] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، «وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……»”زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا……“[فتح الباري: 430/1، طبع دارالسلام] نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہو کر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔ ➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 18
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 624
حضرت حذیفہ ؓ کی روایت ہے: کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، آپ کچھ لوگوں کے کوڑا پھینکنے کی جگہ پر پہنچے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا، تو میں دور ہٹ گیا، آپ ﷺ نے فرمایا:“قریب آجا!”تو میں قریب ہو کر آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا (فراغت کے بعد) آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:624]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیٹھنے کے لیے جگہ نہ ملے اور پیشاب کی ضرورت لاحق ہوجائے، تو کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا تہذیب وشائستگی کی علامت ہے، اور اس کا تعلق آداب واخلاق سے ہے، اس لیے کبھی کبھار ضرورت کے تحت ایسے کرنا جائز ہے۔ آپ کی عام عادت دور جانے کی تھی اور اس دفعہ آپ دور بھی تشریف نہیں لے گئے اور پردہ کے لیے حضرت حذیفہ ؓ کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔