سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”گھر کا پڑوسی گھر
(خریدنے) کا زیادہ حقدار ہے
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے اور قتادہ نے انس سے اور انس نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ نیز سعید بن ابی عروبہ سے مروی ہے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ سے اور سمرہ نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں شرید، ابورافع اور انس سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور اہل علم کے نزدیک صحیح حسن کی حدیث ہے جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے۔ اور ہم قتادہ کی حدیث کو جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہے، صرف عیسیٰ بن یونس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی کی حدیث جسے انہوں نے عمرو بن شرید سے اور عمرو نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس باب میں حسن حدیث ہے۔ اور ابراہیم بن میسرہ نے عمرو بن شرید سے اور عمرو نے ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1368
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
شفعہ اس استحقاق کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شریک (ساجھے دار) سے شریک کا وہ حصہ جودوسرے کی ملکیت میں جا چُکا ہو قیمت ادا کرکے حاصل کرسکے۔
2؎:
اس حدیث سے پڑوسی کے لیے حق شفعہ کے قائلین نے ثبوت شفعہ پر استدلال کیا ہے،
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس جگہ پڑوسی سے مراد ساجھے دار ہے پڑوسی نہیں،
کیونکہ اس حدیث میں اور حدیث ”إذا وقعت الحدود وصرفت الطريق فلا شفعة “ (یعنی:
جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو شفعہ نہیں) جو آگے آ رہی ہے میں تطبیق کا یہی معنی لینا ضروری ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1368