(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا، فجاءته إبل من الصدقة، قال ابو رافع: " فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقضي الرجل بكره "، فقلت: لا اجد في الإبل إلا جملا خيارا رباعيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطه إياه فإن خيار الناس احسنهم قضاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكْرًا، فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: " فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ "، فَقُلْتُ: لَا أَجِدُ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْطِهِ إِيَّاهُ فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ ادا کر دوں، میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اور اونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے اسی کو دے دو، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگر خود بخود اپنی رضا مندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الادا قرض سے مقدار میں زیادہ یا بہتر اور عمدہ ادا کرے تو یہ جائز ہے، اور اگر قرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کر لے تو یہ سود ہو گا جو بہر صورت حرام ہے۔
استسلف من رجل بكرا فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره فرجع إليه أبو رافع فقال لم أجد فيها إلا خيارا رباعيا فقال أعطه إياه خيار الناس أحسنهم قضاء
استسلف من رجل بكرا وقال إذا جاءت إبل الصدقة قضيناك فلما قدمت قال يا أبا رافع اقض هذا الرجل بكره فلم أجد إلا رباعيا فصاعدا فأخبرت النبي فقال أعطه خير الناس أحسنهم قضاء
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1318
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگرخود بخود اپنی رضامندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الادا قرض سے مقدارمیں زیادہ یا بہتراورعمدہ ادا کرے تو یہ جائزہے، اوراگرقرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کرلے تو یہ سود ہوگا جو بہرصورت حرام ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1318
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 524
´ کسی کوتاہی کے بغیر قرض ادا کرنے والے کی فضیلت` «. . . عن عطاء بن يسار عن ابى رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا، فجاءته إبل الصدقة قال ابو رافع: فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقضي الرجل بكره، فقلت: لم اجد فى الإبل إلا جملا خيارا رباعيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اعطه إياه، فإن خيار الناس احسنهم قضاء . . .» ”. . . سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ مولٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ قرض لیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقے کے اونٹ آئے، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کر دوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا۔ میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی میں سے اسے دے دو، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 524]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1600، من حديث ما لك به] تفقه: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساکین کو دینے کے لئے اونٹ قرض لئے تھے جن میں سے چھوٹا اونٹ بھی تھا پھر یہ قرضہ صدقے والے اونٹوں سے ادا کردیا۔ معلوم ہوا کہ خرید و فروخت علیحدہ چیز ہے اور قرض لینا علیحدہ ہے۔ ➋ اکثر علماء کے نزدیک صدقہ زکٰوہ اپنے وقت سے پہلے ادا کر دینا جائز ہے۔ [التمهيد 59/4] ➌ حیوانوں کی خرید وفروخت نقد ہو یا قرض، دونوں طرح جائز ہے۔ ➍ اگر کوئی شخص کسی آدمی سے بغیر کسی شرط کے قرض لے اور بعد میں قرض ادا کرے اور اس کے ساتھ اپنی خوشی سے کچھ زیادہ تحفتاً دے دے تو جائز ہے۔ اگر قرض لیتے وقت کوئی ایسی شرط لگائی جائے کہ ضرور اضافہ دینا ہے تو یہ سُود (ربا) ہے جو کہ حرام ہے۔ دیکھئے [التمهيد 68/4] ● سیدنا ابوعبدالرحمن عبدالله بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے کچھ دراہم قرض لئے۔ بعد میں انہوں نے یہ قرض اسے اچھے دراہم دے کر ادا کیا تو اس شخص نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! میں نے آپ کو جو دراہم قرض دیئے تھے، یہ ان سے اچھے ہیں۔ تو عبداللہ بن عمر نے فرمایا: مجھے پتا ہے لیکن میرا دل اس پر خوش ہے۔ [الموطأ 681/2 ح 1423، وسنه صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 172
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4621
´جانور میں بیع سلم یا ادھار معاملہ کرنے کا بیان۔` ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے اونٹ کے بچے میں بیع سلم کی، وہ شخص اپنے نوجوان اونٹ کا تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے ایک شخص سے کہا: ”جاؤ، اس کے لیے نوجوان اونٹ خرید دو“، اس نے آپ کے پاس آ کر کہا: مجھے تو سوائے بہترین، «رباعی»(جو ساتویں برس میں لگ چکا ہو) نوجوان اونٹ کے کوئی نہیں ملا، آپ نے فرمایا: ”اسے وہی دے دو، اس لیے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بہتر ہو۔“[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4621]
اردو حاشہ: (1) اکثر اہل علم کے نزدیک جانور اور حیوان بطور قرض لیا جا سکتا ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت بہتر اور اعلیٰ چیز دینا افضل اور احسن عمل ہے بشرطیکہ قرض حاصل کرنے کے موقع پر اس قسم کو کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو۔ اگر قرض دینے والا اس قسم کی کوئی شرط لگائے گا تو یہ بالا تفاق حرام ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جائے تو قرض خواہ واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے، نیز یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مقروض کو کسی قسم کے لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ قرض کی بر وقت ادائیگی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ (4) رسول اللہ ﷺ عام طور پر ضرورت مند محتاجوں اور سائلوں کی خاطر قرض لیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور اطاعت کے امور میں تعاون کی خاطر قرض اٹھانا جائز ہے، نیز تمام مباح امور کے لیے قرض لینا دینا درست ہے۔ (5) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کے اثبات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ امام وقت، یعنی مسلمانوں کا خلیفہ اور حکمران، محتاج رعایا اور ضرورت مند عوام کی خاطر قرض اٹھا سکتا ہے اور اس کی ادائیگی بیت المال میں جمع ہونے والی زکاۃ صدقات کی رقم سے ہوگی۔ اس سلسلے میں ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے قرض کی رقم صرف ضرورت مند لوگوں اور جائز امور پر خرچ ہونی چاہیے۔ ایسی رقم سے آج کے حکمران کو اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں یہ سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ اس قسم کے قرض کی ادائیگی نہ تو بیت المال کے ذمے ہو گی اور نہ قومی خزانے کے ذمے، بلکہ عیاشی کرنے والے حکمرانوں ہی کی ذاتی رقم سے قرض ادا کرنا ضروری ہو گا۔ (6) قرض کی ادائیگی میں وکالت، یعنی کسی کو وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ تو جا کر اس کا قرض ادا کر دے۔ (7) جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے۔ وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے جیسے کسی سے رقم ادھار یا قرض لے کر مقررہ وقت پر واپس کر دی جاتی ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں کیونکہ یہ قرض نہیں، بیع ہے۔ اور حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار بیع درست نہیں جیسا کہ ایک صریح حدیث (4624) میں ہے۔ وہ اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حدیث نہیں، اس قسم کی کئی احادیث ہیں جن میں جانور قرض لینے اور بعد میں ادا کرنے کا ذکر ہے۔ دراصل شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے۔ اگر کوئی اصول لوگوں کے لیے مشکل کا باعث بنے تو وہ اصول قابل لحاظ نہیں رہتا۔ بلی کے جوٹھے کو احناف بھی پاک کہتے ہیں، حالانکہ وہ حرام جانور ہے۔ پلید چوہے کھاتی ہے۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑجائے تو جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے اور وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے، نیز یہ نہی والی روایت کا مفہوم بھی قطعی نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا کہ حیوان کی حیوان کے بدلے بیع اس وقت منع ہے جب ادھار دونوں طرف سے ہو۔ اگر ادھار ایک طرف سے ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا صورت میں بھی ادھار ایک طرف سے ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4621
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2285
´حیوانات میں بیع سلم کا بیان۔` ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے ایک جوان اونٹ کی بیع سلم کی یعنی اسے قرض کے طور پر لیا، اور فرمایا: ”جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہارا اونٹ کا قرض ادا کر دیں گے“، چنانچہ جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابورافع! اس کے اونٹ کا قرض ادا کر دو“، ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ڈھونڈا تو مجھے ویسا اونٹ نہیں ملا، سوائے ایک ایسے اونٹ کے جس نے اپنے سامنے کے چاروں دانت گرا رکھے تھے، جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2285]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) ادھار خرید وفروخت جائز ہے۔
(2) رباعی سے مراد وہ اونٹ ہے جس کے دودھ کے چار وانت ٹوٹ چکے ہوں اس کی عمر سات سال ہوتی ہے۔
(3) جانور جس قسم کا لیا ہو، اس سے بہتر واپس کرنا جائز ہے بشرطیکہ پہلے سے یہ شرط طے نہ ہوئی ہو بلکہ ادا کرنے والا اپنی خوشی سے ادا کرے، دوسرے کی طرف سے مطالبہ نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2285
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4108
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو آپﷺ نے ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ اس آدمی کو اس کے (جوان اونٹ کے عوض) جوان اونٹ دے دو، تو ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ نے واپس آ کر آپﷺ کو بتایا کہ مجھے ان اونٹوں میں اس سے بہتر ساتویں سال کا اونٹ ہی ملتا ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: ”اسے وہی دے دو،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4108]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) بكر: نوجوان اونٹ۔ (2) رباعي: جو چھ سال کا ہو چکا ہو اور ساتویں میں داخل ہو۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرورت کے تحت حیوان قرض لینا جائز ہے، ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور فقہاء کا یہی موقف ہے، لیکن احناف کے نزدیک کسی قسم کا حیوان قرض لینا کہ ہم اس قسم کا حیوان دے دیں گے، جائز نہیں ہے، کیونکہ حیوان ان کے نزدیک مثلی چیزوں میں داخل نہیں ہے، کہ اس کی مثل (اس جیسی چیز) ادا کی جا سکے، بلکہ ان چیزوں میں سے ہے جن کی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے، اور ان صریح احادیث کی وہ تأویل کرتے ہیں، جو درست سوچ نہیں ہے، کیونکہ بلا دلیل کسی حدیث کو منسوخ قرار دینا، یا اس میں تخصیص پیدا کرنا، یا اس کے مقابلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال پیش کرنا پسندیدہ روش نہیں ہے، تأویل احادیث کی بجائے، صحابہ کے اقوال میں کی جائے گی، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرض چکاتے وقت، اپنی طرف سے، اپنی مرضی سے، بلا شرط، بہتر چیز یا زائد چیز دینا، اخلاق حسنہ میں داخل ہے اور پسندیدہ طرز عمل ہے۔