سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
19. باب مَا جَاءَ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ
19. باب: ظہار کرنے والے کا بیان جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کر بیٹھے۔
Chapter: What has been related about the one who has uttered Zihar and has intercourse (with his wife) before atoning
حدیث نمبر: 1198
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن عمرو بن عطاء، عن سليمان بن يسار، عن سلمة بن صخر البياضي، عن النبي صلى الله عليه وسلم في المظاهر يواقع قبل ان يكفر، قال: " كفارة واحدة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، وهو قول: سفيان، ومالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعضهم: إذا واقعها قبل ان يكفر، فعليه كفارتان وهو قول: عبد الرحمن بن مهدي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، قَالَ: " كَفَّارَةٌ وَاحِدَةٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ، وَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، فَعَلَيْهِ كَفَّارَتَانِ وَهُوَ قَوْلُ: عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
سلمہ بن صخر بیاضی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کر لیتا ہے فرمایا: اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے تو اس پر دو کفارہ ہے۔ یہ عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔

وضاحت:
۱؎: ظہار کا مطلب بیوی سے «أنت علي کظہرامي» (تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کہنا ہے، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، امت محمدیہ میں ایسا کہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے در پے بلا ناغہ دو مہینے کے روزے رکھے اگر درمیان میں بغیر عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے، عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، اور اگر پے در پے دو مہینہ کے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 17 (2213)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 25 (2062)، (تحفة الأشراف: 4555)، مسند احمد (5/436)، سنن الدارمی/الطلاق 9 (2319) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2064)

قال الشيخ زبير على زئي: (1198) إسناده ضعيف / جه 2064
قال البخاري: ”سليمان (بن يسار) لم يسمع عندي من سلمة (بن صخر)“ (سنن الترمذي: 3299) والحديث الآتي (الأصل: 1200) يغني عنه

   جامع الترمذي3299سلمة بن صخرتظاهرت من امرأتي حتى ينسلخ رمضان فرقا من أن أصيب منها في ليلتي فأتتابع في ذلك إلى أن يدركني النهار وأنا لا أقدر أن أنزع فبينما هي تخدمني ذات ليلة إذ تكشف لي منها شيء فوثبت عليها فلما أصبحت غدوت على قومي فأخبرتهم خبري فقلت انطلقوا معي إلى رسول الله صلى الل
   جامع الترمذي1200سلمة بن صخرجعل امرأته عليه كظهر أمه حتى يمضي رمضان فلما مضى نصف من رمضان وقع عليها ليلا فأتى رسول الله فذكر ذلك له فقال له رسول الله أعتق رقبة قال لا أجدها قال فصم شهرين متتابعين قال لا أستطيع قال أطعم ستين مسكينا قال لا أجد فقا
   جامع الترمذي1198سلمة بن صخركفارة واحدة
   سنن أبي داود2213سلمة بن صخرانطلق إلى صاحب صدقة بني زريق فليدفعها إليك فأطعم ستين مسكينا وسقا من تمر وكل أنت وعيالك بقيتها
   سنن ابن ماجه2062سلمة بن صخرانكشف لي منها شيء فوثبت عليها فواقعتها فلما أصبحت غدوت على قومي فأخبرتهم خبري وقلت لهم سلوا لي رسول الله فقالوا ما كنا لنفعل إذا ينزل الله فينا كتابا أو يكون فينا من رسول الله قول فيبقى علينا عاره ولكن سوف نسلم
   سنن ابن ماجه2064سلمة بن صخرالمظاهر يواقع قبل أن يكفر قال كفارة واحدة
   بلوغ المرام935سلمة بن صخر حرر رقبة

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1198 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1198  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ظہار کا مطلب بیوی سے «أنتِ عَلَيّ کَظَہْر امِّي»  (تومجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کہنا ہے،
زمانہء جاہلیت میں ظہار کوطلاق سمجھا جاتا تھا،
امت محمدیہ میں ایسا کہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتا ہے،
اوروہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے،
اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے بلاناغہ دومہینے کے صیام رکھے اگردرمیان میں بغیر عذرشرعی کے صوم چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دومہینے کے صیام رکھنے پڑیں گے،
عذرشرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے،
اوراگر پے درپے دومہینہ کے صیام رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 935  
´ایلاء، ظہار اور کفارہ کا بیان`
سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک شروع ہوا۔ مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ میں اپنی بیوی سے مباشرت کر بیٹھوں گا۔ اس اندیشہ کے پیش نظر میں نے بیوی سے ظہار کر لیا۔ ایک چاندنی رات میں اس کے بدن کی کوئی چیز میرے سامنے کھل گئی تو میں اس سے مجامعت کر بیٹھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ ایک گردن (غلام) آزاد کر۔ میں نے عرض کیا میں تو اپنی گردن کے سوا دوسری کسی گردن کا مالک نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر پے در پے دو ماہ کے روزے رکھ۔ میں نے عرض کیا اس مصیبت میں روزے ہی کی وجہ سے تو مبتلا ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو پھر کھجوروں کا ایک ٹوکرا ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو۔ اسے احمد اور چاروں نے ماسوا نسائی کے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن جارود نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 935»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في الظهار، حديث:2213، والترمذي، الطلاق واللعان، حديث:1200، وابن ماجه، الطلاق، حديث:2062، وأحمد:5 /436.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۲۶ /۳۴۷‘ ۳۵۰‘ وإرواء الغلیل: ۷ /۱۷۶. ۱۷۹‘ رقم:۲۰۹۱)
راویٔ حدیث:
«حضرت سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ سلسلہ نسبسلمہ بن صخر بن سلیمان بن صمہ بیاضی ہے۔
بیاضی کے با پر فتحہ ہے اور یہ بنوبیاضہ کی جانب نسبت ہے جو خزرج قبیلے کی شاخ تھی۔
یہ صحابی ٔ ٔرسول ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو اللہ کے ڈر سے بہت رونے والے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 935   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2213  
´ظہار کا بیان۔`
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2213]
فوائد ومسائل:

ایمان جب دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے تومومن اللہ کی نافرمانی سے خائف رہتا ہے۔
اور اگر کوئی خطا ہوجائے تو فورا اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔
اور یہی تفسیر ہے اس قول کی کہ ایمان خوف اور رجا (امید) کے درمیان ہے اور یہ واقعہ اس کی شاندار مثال ہے۔


ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع میں چار مد اس حساب سے ایک صاع کا وزن تقریبا ڈھائی کلو اور ایک وسق کا وزن تین من اور تیس کلو اور بعض علماء کے نزدیک تین من اور چھ کلو ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2213   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2062  
´ظہار کا بیان۔`
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے عورتوں کی بڑی چاہت رہتی تھی، میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورت سے اتنی صحبت کرتا ہو جتنی میں کرتا تھا، جب رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے رمضان گزرنے تک ظہار کر لیا، ایک رات وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کا کچھ بدن کھل گیا، میں اس پہ چڑھ بیٹھا، اور اس سے مباشرت کر لی، جب صبح ہوئی تو میں اپنے لوگوں کے پاس گیا، اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا، میں نے ان سے کہا: تم لوگ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو، تو انہوں نے کہا: ہم نہیں پوچھیں گے، ایسا نہ ہو کہ ہماری شان میں وحی اترے، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2062]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی وجہ سے صحیح قراردیا ہے۔
تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 26/ 347، 350، وإرواہ الغلیل: 7/ 176، 179، رقم: 2091)
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔

(2)
  ظہار کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے:
تو میرے لیے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو مجھ پر اسی طرح حرام ہے جس طرح ماں حرام ہوتی ہے۔

(3)
  ظہار کرنا گناہ ہے لیکن اس سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔
صرف اس وقت تک مقاربت منع ہو جاتی ہے جب تک کفارہ ادا نہ کرلیا جائے۔

(4)
  اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ایک غلام آزاد کیا جائے۔
اگر یہ ممکن نہ ہوتو دوماہ تک مسلسل روزے رکھے۔
اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو ساٹھ مسکینوں کوایک وقت کھانا کھلادے۔

(5)
جس شخص پر کسی وجہ سے کفارہ واجب ہو جائے اور وہ اتنا غریب ہو کہ ادا نہ کرسکتا ہو تومسلمانوں کو چاہیے کہ صدقات و زکاۃ سے اس کی مدد کریں تاکہ وہ کفارہ ادا کرسکے۔

(6)
  اگر مقررہ مدت کےلیے ظہار کیا جائے، پھر اس مدت میں مقاربت سے پرہیز کیا جائے تو کفارہ واجب نہیں ہوگا۔

(7)
  اگر ظہار میں مدت کا ذکر نہ ہو تو جب بھی بیوی سے ملاپ کرنا چاہے گا، ضروری ہوگا کہ اس سے پہلے کفارہ ادا کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2062   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3299  
´سورۃ المجادلہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
سلمہ بن صخر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت و قوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کو بھی نہ ملی ہو گی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کر بیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہو جائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہو پاؤں، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ۱؎ کر لیا، پھر ایسا ہوا کہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑ گئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3299]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں نے کہہ دیا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے۔
تاکہ رمضان بھر تو جماع سے بچا رہ سکوں،
اور حالت صوم میں جماع کی نوبت نہ آنے پائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3299   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.