(مرفوع) حدثنا ابو كريب، ومحمد بن عمرو السواق، قالا: حدثنا يحيى بن اليمان، عن المنهال بن خليفة، عن الحجاج بن ارطاة، عن عطاء، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل قبرا ليلا فاسرج له سراج فاخذه من قبل القبلة، وقال: " رحمك الله إن كنت لاواها تلاء للقرآن، وكبر عليه اربعا ". قال: وفي الباب، عن جابر، ويزيد بن ثابت وهو اخو زيد بن ثابت اكبر منه. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وقالوا: يدخل الميت القبر من قبل القبلة، وقال بعضهم: يسل سلا، ورخص اكثر اهل العلم في الدفن بالليل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ، وَقَالَ: " رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كُنْتَ لَأَوَّاهًا تَلَّاءً لِلْقُرْآنِ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَكْبَرُ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَقَالُوا: يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُسَلُّ سَلًّا، وَرَخَّصَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر میں رات کو داخل ہوئے تو آپ کے لیے ایک چراغ روشن کیا گیا۔ آپ نے میت کو قبلے کی طرف سے لیا۔ اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے! تم بہت نرم دل رونے والے، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزید بن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑے ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ۱؎، ۴- بعض کہتے ہیں: پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ۲؎، ۵- اور اکثر اہل علم نے رات کو دفن کرنے کی اجازت دی ہے ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں ہے۔
۲؎: یہی مذہب امام شافعی، امام احمد اور اکثر لوگوں کا ہے اور دلیل کے اعتبار سے قوی اور راجح بھی یہی ہے، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی الله عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا: سنت طریقہ یہی ہے، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے اور ساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اور ابواسحاق سبیعی کی جو روایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ «معنعن» ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔
۳؎: حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اور جابر کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے «ان النبي صلى الله عليه وسلم زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتیٰ یصلیٰ علیہ»(رواہ مسلم) اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ زجر نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیا کفن دینے کے لیے کرتے تھے لہٰذا اگر ان چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تو رات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیسا کہ احمد نے عائشہ رضی الله عنہا سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکر و عمر کی تدفین بھی رات میں ہوئی اور فاطمہ رضی الله عنہا کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز30 (1520) (ولفظہ ”أدخل رجلاً قبرہ لیلا، وأسرج قبرہ“ وسقط من سندہ الحجا) (تحفة الأشراف: 5889) (ضعیف) (سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن موضع الشاهد منه حسن، المشكاة (2706)، الأحكام (142)
قال الشيخ زبير على زئي: (1057) إسناده ضعيف حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس (تقدم:527) والحديث ضعفه البيھقي (55/4) وأخر جه ابن ماجه (1520) مختصراً جدًا وحديث الحاكم (368/1 ح 1361،345/2، ح 3318 سنده حسن) يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1057
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں ہے۔
2؎: یہی مذہب امام شافعی ؒ، امام احمد ؒاوراکثرلوگوں کا ہے اوردلیل کے اعتبارسے قوی اورراجح بھی یہی ہے، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبرمیں اتارا اورکہا: سنت طریقہ یہی ہے، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمرمیں اختلاط کا شکارہوگئے اورساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اورابواسحاق سبیعی کی جوروایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ معنعن ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔
3؎: حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اورجابرکی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے (اَنَّ النَّبِیَّﷺ زَجَرَأَن یقبرَالرَّجُل لَیلاً حَتّٰی یُصَلّیٰ عَلَیهِ)(رواہ مسلم) اس کا جواب دیاگیا ہے کہ یہ زجرصلاۃِجنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیا کفن دینے کے لیے کرتے تھے لہٰذا اگران چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تورات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرمﷺکی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیسا کہ احمد ؒ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکروعمرکی تدفین بھی رات میں ہوئی اورفاطمہ رضی اللہ عنہا کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔
نوٹ: (سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں۔ )
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1057
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1520
´نماز جنازہ اور میت کی تدفین کے ممنوع اوقات کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو رات میں دفن کیا، اور اس کی قبر کے پاس (روشنی کے لیے) چراغ جلایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1520]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے۔ نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دیگر شواہد بھی بیان کئے ہیں۔ دیکھئے: (أحکام الجنائز، ص: 108) لہٰذا رات کو دفن کرنا مجبوری کے وقت جائز ہے۔ جیسا کہ آئندہ آنے والی حدیث سے بھی یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ جیسے ہماے شیخ نے صحیح مسلم کی حدیث (934) کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل قرار دیا ہے۔ دیکھئے آئندہ حدیث کی تحقیق وتخریج۔
(2) رات کو دفن کرتے وقت روشنی کے لئے چراغ وغیرہ جلانا درست ہے۔ خواہ چراغ قبر کے اندر تک لے جانا پڑے۔ ممنوع کام دفن کے بعد قبر کے اوپر چراغ جلانا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1520