مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں سورۃ النجم پڑھی، تو آپ نے سجدہ کیا، اور جو لوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا، لیکن میں نے اپنا سر اٹھائے رکھا، اور سجدہ کرنے سے انکار کیا، (راوی کہتے ہیں) ان دنوں مطلب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، جعفر بن المطلب مجهول الحال،روي عنه جماعة ووثقه ابن حبان وحده وقال: ’’من متقني أهل مكة وكان فاضلاً‘‘ (مشاهير علماء الأمصار: 621). والحديث الآتي (960) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 328
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 959
959 ۔ اردو حاشیہ: ➊ امام مالک رحمہ اللہ سورۂ نجم کے سجدے کے قائل نہیں، حالانکہ یہاں صریح لفظ ہیں « ﴿فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا﴾ »[النجم 63: 53] ➋ جب آپ نے یہ سورت تلاوت فرمائی، اس وقت آپ کے پاس مشرکین بھی تھے۔ انہوں نے بھی سجدہ کر لیا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے سے انکار نہ تھے۔ بعد میں جب ان کے سرداروں نے ملامت کی کہ سیاسی نقطۂ نظر سے یہ درست نہیں تو پھر انہوں نے جھوٹ گھڑ لیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمارے بتوں کی تعریف کی تھی، حالانکہ یہ بات عقلاً و نقلاً بعید ہے، نیز اس کے بارے میں جو روایت آتی ہے وہ ضعیف ہے۔ ➌ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سجدۂ تلاوت کے لیے وضو کرنا ضروری نہیں کیونکہ آپ کے پاس جتنے لوگ تھے، سب نے سجدہ کیا حتیٰ کہ مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ اور مشرک نجس ہوتا ہے، اگر وہ وضو کر بھی لے تو ناپاک ہی رہتا ہے، چنانچہ معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت کے لیے وضو کرنا ضروری نہیں، البتہ باوضو ہو تو بہتر اور افضل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 959