ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کو بلاط (ایک جگہ کا نام) پر بیٹھے ہوئے دیکھا، اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا بات ہے آپ کیوں نہیں نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: دراصل میں نماز پڑھ چکا ہوں، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دن میں دو بار نماز نہ لوٹائی جائے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ترجمۃ الباب سے مصنف نے یہ اشارہ کیا ہے کہ یہ بات اس صورت پر محمول ہو گی جب اس نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھی ہو۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 861
861 ۔ اردو حاشیہ: امام نسائی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت سے یہ سمجھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے باجماعت نماز پڑھ چکے تھے۔ لوگ اکیلے اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، یا ممکن ہے کہ دوسری جماعت ہو، تب یہ مکالمہ ہوا ہو۔ اگر صورت حال یہی تھی تو پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جواب اور استنباط صحیح ہے۔ لیکن ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ہو رہی تھی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے اکیلے پڑھ کر بیٹھے تھے۔ اس صورت میں ان کا استنباط محل نظر ہے کیونکہ صریح حدیث کے خلاف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیثیں ان کے علم میں نہیں تھیں ورنہ دوسری مرتبہ نماز پڑھنا اسی وقت منع ہے جب پہلے نماز باجماعت کامل طریقے سے پڑھی گئی ہو، لوٹانے کی کوئی وجہ نہ ہو، یا دونوں دفعہ فرض کی نیت کی گئی ہو۔ یہ آخری توجیہ و تطبیق امام احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کی ہے اور حدیث سے یہی مراد ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی، شرح سنن النسائي: 10؍348]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 861
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 579
´جب کوئی جماعت سے نماز پڑھ چکا ہو پھر وہ دوسری جماعت پائے تو دوبارہ پڑھ سکتا ہے؟` ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار کہتے ہیں: میں بلاط میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، لوگ نماز پڑھ رہے تھے تو میں نے کہا: آپ ان کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”تم کوئی نماز ایک دن میں دو بار نہ پڑھو۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 579]
579۔ اردو حاشیہ: اس کا مطلب ہے کہ اپنے طور پر بغیر کسی سبب کے ایک نماز کو دوبارہ نہ پڑھو، تاہم کوئی سبب ہو، تو پڑھناجائز ہے۔ جیسے کسی نے پہلے اکیلے نماز پڑھی ہو، پھر جماعت پائے یا کسی اکیلے کے ساتھ بطور صدقہ نماز میں شریک ہو تو جائز ہے۔ [حديث۔ 574] یا کسی کی امامت کرائے تو بھی جائز ہے۔ [حديث 599] ان صورتوں میں دوسری مرتبہ پڑھی گئی نماز اس کے لئے نفلی نماز ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 579