معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ مجھ سے ابودرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے کہا: حمص کے دُوَین نامی بستی میں، اس پر ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب کسی بستی یا بادیہ میں تین افراد موجود ہوں، اور اس میں نماز نہ قائم کی جاتی ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑ یا ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری ہی کو کھاتا ہے“۔ سائب کہتے ہیں: جماعت سے مراد نماز کی جماعت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 47 (547)، (تحفة الأشراف: 10967)، مسند احمد 5/196 و 6/446 (حسن)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 848
848 ۔ اردو حاشیہ: انسان مدنی الطبع ہے، اکیلا رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام ضروریات اکیلا پوری نہیں کر سکتا۔ اکیلے سے افزائش نسل بھی نہیں ہو سکتی، بالکل اسی طرح دینی زندگی بھی اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ جیسے اہم اور بنیادی ارکان اسلام کی ادائیگی بھی اکیلے کے لیے کماحقہ ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جہاں بھی ایک سے زائد مسلمان رہتے ہوں، وہ مل جل کر رہیں۔ اپنے میں سے افضل شخص کو امیر اور امام بنائیں۔ اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اس کی ہدایات کے تحت زندگی بسر کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ نظم و ضبط کے ساتھ کام کریں۔ نماز چونکہ اسلامی زندگی کا لازمی اور دائمی جز ہے بلکہ جزو اعظم ہے، لہٰذا اس میں اجتماعیت ضروری ہے۔ نماز باجماعت پڑھنا لازمی ہے۔ اکیلا آدمی آسانی سے شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جب کہ جماعت میں بندھا ہوا شخص محفوظ رہتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریوڑ اور بھیڑیے کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجماع امت کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے اور بلاوجہ جمہور اہل علم سے جدا نہیں ہونا چاہیے کیوکہ تفرد اور شذوذ (اکیلا ہو جانا) انسان کو شیطان کے قریب کر دیتا ہے بلکہ دراصل یہ شیطان داؤ ہے۔ صحابہ و تابعین کی جماعت کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 848
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 547
´جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔` ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، اس لیے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوتی ہے۔“ زائدہ کا بیان ہے: سائب نے کہا: جماعت سے مراد نماز باجماعت ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 547]
547۔ اردو حاشیہ: «عليك بالجماعة»”جماعت کو لازم پکڑو۔“ کی تاکید سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے ظاہری و باطنی فتنوں سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ نماز باجماعت کا اہتمام ہے۔ اس جملے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ا جتماعیت کا التزام رکھو اور کوئی عقیدہ یا عمل ایسا اختیار نہ کرو، جو جماعت صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عقیدہ و عمل کے برعکس ہو۔ جماعت اور اجتماعیت میں عدد اور گنتی کی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ دین اسلام کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت صحیحہ پر ہے اس کے اختیار کرنے ہی میں اجتماعیت ہے خواہ افراد کتنے ہی کم ہوں۔ اور اصل کو چھوڑنے میں افتراق ہے۔ خواہ ان کی تعداد کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ دیکھئے حضرات ابراہیم علیہ السلام کو اکیلے ہوتے ہوئے بھی امت قرار دیا گیا ہے۔ «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّـهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» ”بلاشبہ ابراہیم ایک امت تھے، اللہ کے مطیع یکسو اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 547