(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، قال: حدثنا ابو زبيد واسمه عبثر بن القاسم، عن حصين، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال بعض القوم لو عرست بنا يا رسول الله، قال:" إني اخاف ان تناموا، عن الصلاة، قال بلال: انا احفظكم فاضطجعوا فناموا واسند بلال ظهره إلى راحلته فاستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس فقال:" يا بلال اين ما قلت" قال: ما القيت علي نومة مثلها قط، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل قبض ارواحكم حين شاء فردها حين شاء قم يا بلال فآذن الناس بالصلاة" فقام بلال فاذن فتوضئوا يعني حين ارتفعت الشمس ثم قام فصلى بهم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ وَاسْمُهُ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قال: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا، عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ بِلَالٌ: أَنَا أَحْفَظُكُمْ فَاضْطَجَعُوا فَنَامُوا وَأَسْنَدَ بِلَالٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَالَ:" يَا بِلَالُ أَيْنَ مَا قُلْتَ" قَالَ: مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ فَرَدَّهَا حِينَ شَاءَ قُمْ يَا بِلَالُ فَآذِنِ النَّاسَ بِالصَّلَاةِ" فَقَامَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ فَتَوَضَّئُوا يَعْنِي حِينَ ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى بِهِمْ.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (سفر میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! کاش آپ آرام کے لیے پڑاؤ ڈالتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ڈر ہے کہ تم کہیں نماز سے سو نہ جاؤ“، اس پر بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سب کی نگرانی کروں گا، چنانچہ سب لوگ لیٹے، اور سب سو گئے، بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی پیٹھ اپنی سواری سے ٹیک لی، (اور وہ بھی سو گئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج نکل چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”بلال! کہاں گئی وہ بات جو تم نے کہی تھی؟“ بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھ پر ایسی نیند جیسی اس بار ہوئی کبھی طاری نہیں ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے لوٹا دیتا ہے، بلال اٹھو! اور لوگوں میں نماز کا اعلان کرو“ ؛ چنانچہ بلال کھڑے ہوئے، اور انہوں نے اذان دی، پھر لوگوں نے وضو کیا، اس وقت سورج بلند ہو چکا تھا، تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 35 (595)، التوحید 31 (7471) (مختصراً علي قولہ: إن اللہ إذا الخ)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 11 (439، 440)، (تحفة الأشراف: 12096)، مسند احمد 5/307 (صحیح)»
أخاف أن تناموا عن الصلاة قال بلال أنا أحفظكم فاضطجعوا فناموا وأسند بلال ظهره إلى راحلته فاستيقظ رسول الله وقد طلع حاجب الشمس فقال يا بلال أين ما قلت قال ما ألقيت علي نومة مثلها قط قال رسول الله إن الله قبض أرواحكم حين شاء فردها حين شاء قم يا بلال فآذن الن
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 595
´وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھتے وقت اذان دینا` «. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلَاةِ، قَالَ بِلَالٌ: أَنَا أُوقِظُكُمْ، فَاضْطَجَعُوا وَأَسْنَدَ بِلَالٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ فَنَامَ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ، أَيْنَ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ يَا بِلَالُ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ فَتَوَضَّأَ، فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ وَابْيَاضَّتْ قَامَ فَصَلَّى " . . . .» ”. . . عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے، انہوں نے اپنے باپ سے، کہا ہم (خیبر سے لوٹ کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ۔ اس پر بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! تو نے کیا کہا تھا۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے۔ اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ:: 595]
تشریح: اس حدیث شریف سے قضاء نماز کے لیے اذان دینا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قدیم قول یہی ہے۔ اور یہی مذہب ہے امام احمد و ابوثور اور ابن منذر کا۔ اور اہل حدیث کے نزدیک جس نماز سے آدمی سو جائے یا بھول جائے پھر جاگے یا یاد آ ئے۔ اور اس کو پڑھ لے تو وہ ادا ہو گی نہ کہ قضاء۔ کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ اس کا وقت وہی ہے جب آدمی جاگا یا اس کو یاد آئی۔ (مولانا وحیدالزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 595
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7471
7471. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ جب لوگ نماز (فجر) سے سوئے رہ گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری روحیں روک لیں اور جب چاہا انہیں چھوڑ دیا۔“ صحابہ کرام نے اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کیا آخر جب سورج پوری طرح طلوع ہوگیا اور خوب دن نکل آیا تو آپ کھڑے ہوئے اور نماز ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7471]
حدیث حاشیہ: ا س میں بھی مشیت الہی کا ذکر ہے جو سب پر غالب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7471
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:595
595. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم ایک شب نبی ﷺ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے، کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہم سب لوگوں کے ہمراہ آخر شب آرام فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے ڈر ہے کہ مبادا تم نماز سے سوتے رہو۔“ حضرت بلال ؓ گویا ہوئے: میں سب کو جگا دوں گا، چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے اور بلال ؓ اپنی پشت اپنی اونٹنی سے لگا کر بیٹھ گئے، مگر جب ان کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہوا تو وہ بھی سو گئے۔ نبی ﷺ ایسے وقت بیدار ہوئے کہ سورج کا کنارہ نکل چکا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اے بلال! تمہارا قول و قرار کہاں گیا؟“ وہ بولے مجھے آج جیسی نیند کبھی نہیں آئی، اس پر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری ارواح کو قبض کر لیا اور جب چاہا انہیں واپس کر دیا۔ اے بلال! اٹھو اور لوگوں میں نماز کے لیے اذان دو۔“اس کے بعد آپ نے وضو کیا، جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپکھڑے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:595]
حدیث حاشیہ: (1) اذان وقت نماز کے لیے اعلان ہوتا ہے۔ جب نماز فوت ہوجائے تو شاید سمجھا جائے کہ اب اذان کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ وقت گزر گیا ہے، چنانچہ بعض حضرات ایسے وقت میں اذان نہ دینے کے قائل ہیں، اس لیے کے لوگ کہیں گے یہ بلاوقت اذان کیسی ہے؟ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ فوت شدہ نماز کے لیے اذان کہی جاسکتی ہے، لیکن "ذھاب الوقت" کے الفاظ لا کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ فوت شدہ نماز کےلیے اذان اس وقت کہی جائے جب قضا، انقضائے وقت کے فوراً بعد ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کئی دنوں کے بعد اسے یاد آئے تو اس وقت فوت شدہ نماز کےلیے اذان دینا شروع کر دے۔ اگر فوت شدہ کئی نمازیں ہیں تو پہلی نماز کےساتھ اذان اور اقامت اور باقی نمازوں کے ساتھ صرف اقامت کہنا اور انھیں باجماعت ادا کرنا مشروع ہے، جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تو ادائیگی کے موقع پر حضرت بلال ؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھائی۔ اور پھر اقامت کہی تو مغرب، پھر آخر میں اقامت کہنے کے بعد نماز عشاء ادا کی۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 179) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، لیکن دیگر شواہد کی وجہ سے اس کا مفہوم صحیح ہے۔ اگر انسان کسی ایسی جگہ ہو جہاں اذان نہ کہی گئی ہوتو اذان کہنے کا اہتمام کیا جائے، بصورت دیگر اذان کہنا ضرری نہیں۔ البتہ ہر نماز کےلیے اقامت ضرور کہی جائے۔ (2) بعض اہل علم کا خیال ہے کہ نمازی جب غلبۂ نیند کی وجہ سے صبح کی نماز نہ پڑھ سکے، پھر جب وہ طلوع آفتاب کے وقت بیدار ہوتو اسے نماز پڑھنے کےلیے سورج کے خوب روشن ہونے تک انتظار کرنا چاہیے اور وہ اس حدیث کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں وقت کراہت کی وجہ سے انتظار کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں بلکہ اس حدیث کے ایک طریق سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو سورج کی گرمی نے بیدار کیا، یعنی دن کافی چڑھ چکا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 437) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ضروری حوائج سے فراغت اور وضو کرنے تک کی مہلت دی، اتنے میں دن خوب روشن ہوچکا تھا، اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور نماز باجماعت کا اہتمام فرمایا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7471) نیز حدیث میں ہے کہ جو نمازی اپنی نماز سے سورہے یا وہ بروقت ادا کرنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب وہ بیدار ہویا جب اسے یاد آئے تو اسے پڑھ لے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 177) اس حدیث کا بھی تقاضا ہے کہ ایسے حالات میں نیند سے بیدار ہونے یایاد آنے پر اسے نماز پڑھ لینی چاہیے، اسے مزید انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس مسئلے کی مختصر طور پر وضاحت فرمائی ہے۔ (فتح الباري: 89/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 595
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7471
7471. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ جب لوگ نماز (فجر) سے سوئے رہ گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری روحیں روک لیں اور جب چاہا انہیں چھوڑ دیا۔“ صحابہ کرام نے اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کیا آخر جب سورج پوری طرح طلوع ہوگیا اور خوب دن نکل آیا تو آپ کھڑے ہوئے اور نماز ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7471]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یہاں انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے البتہ کتاب مواقیت الصلاۃ میں اسے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث: 595) یہ واقعہ کسی سفر میں پیش آیا اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق غزوہ خیبر سے واپسی پر یہ واقعہ ہوا۔ (المصنف العبدالرزاق: 587/1) 2۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو بیان کیا ہے کہ تمھاری روحیں اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں وہ ان کا مالک ہے جب انھیں قبض کر لیتا ہے تو انسان مردہ شمار ہوتا ہے اسی طرح انسان بے اختیار ہے کہ جب چاہے سو جائے اور جب چاہے بیدار ہو جائے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کر لیا اور دوسری کو ایک مقررہ مدت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ “(الزمر: 39۔ 42) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مشیت الٰہی کے اثبات کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے جو اپنے مقصود میں بالکل واضح ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7471