سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل
The Book of the Qiblah
20. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي الصَّلاَةِ فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلاَمٌ
20. باب: نقش و نگار والی چادر میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔
Chapter: The concession for praying in a khamisah (a kind of garment) that has markings
حدیث نمبر: 772
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، وقتيبة بن سعيد، واللفظ له، عن سفيان، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في خميصة لها اعلام، ثم قال:" شغلتني اعلام هذه، اذهبوا بها إلى ابي جهم واتوني بانبجانيه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، ثُمَّ قَالَ:" شَغَلَتْنِي أَعْلَامُ هَذِهِ، اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيِّهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان بیل بوٹوں نے مجھے مشغول کر دیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ، اور اس کے عوض کوئی سادی چادر لے آؤ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 14 (373)، الأذان 93 (752)، اللباس 19 (5817)، صحیح مسلم/المساجد 15 (556)، سنن ابی داود/الصلاة 167 (914)، اللباس 11 (4053)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (3550)، (تحفة الأشراف: 16434)، موطا امام مالک/الصلاة 18 (68) مرسلاً، مسند احمد 6/37، 46، 177، 199، 208 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري373عائشة بنت عبد اللهاذهبوا بخميصتي هذه إلى أبي جهم وأئتوني بأنبجانية أبي جهم فإنها ألهتني آنفا عن صلاتي
   صحيح البخاري752عائشة بنت عبد اللهشغلتني أعلام هذه اذهبوا بها إلى أبي جهم وأتوني بأنبجانية
   صحيح البخاري5817عائشة بنت عبد اللهاذهبوا بخميصتي هذه إلى أبي جهم فإنها ألهتني آنفا عن صلاتي وأتوني بأنبجانية أبي جهم بن حذيفة بن غانم من بني عدي بن كعب
   صحيح مسلم1240عائشة بنت عبد اللهكانت له خميصة لها علم فكان يتشاغل بها في الصلاة فأعطاها أبا جهم وأخذ كساء له أنبجانيا
   صحيح مسلم1238عائشة بنت عبد اللهشغلتني أعلام هذه فاذهبوا بها إلى أبي جهم وأتوني بأنبجانيه
   صحيح مسلم1239عائشة بنت عبد اللهاذهبوا بهذه الخميصة إلى أبي جهم بن حذيفة وأتوني بأنبجانيه فإنها ألهتني آنفا في صلاتي
   سنن أبي داود915عائشة بنت عبد اللهأخذ كرديا كان لأبي جهم فقيل يا رسول الله الخميصة كانت خيرا من الكردي
   سنن أبي داود4052عائشة بنت عبد اللهاذهبوا بخميصتي هذه إلى أبي جهم فإنها ألهتني آنفا في صلاتي وأتوني بأنبجانيته
   سنن النسائى الصغرى772عائشة بنت عبد اللهشغلتني أعلام هذه اذهبوا بها إلى أبي جهم وأتوني بأنبجانيه
   سنن ابن ماجه3550عائشة بنت عبد اللهشغلني أعلام هذه اذهبوا بها إلى أبي جهم وأتوني بأنبجانيته
   مسندالحميدي172عائشة بنت عبد اللهأن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في خميصة لها أعلام

سنن نسائی کی حدیث نمبر 772 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 772  
772 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ منقش چادر ابوجہم رضی اللہ عنہ ہی نے بطور تحفہ بھیجی تھی چونکہ تحفے کی واپسی سے ان کی دل شکنی کا خطرہ تھا، لہٰذا تحفے کا تبادلہ کر لیا۔
➋ انبجانی بغیر دھاریوں کے سادہ چادر ہوتی تھی۔ انبجان علاقہ تھا جہاں وہ چادریں بنتی تھیں۔
➌ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مقدس اس قدر صاف تھا کہ اس میں ہلکی سی لہر بھی آپ کو محسوس ہوتی تھی۔ معمولی سا خیال بھی آپ کو بہت زیادہ محسوس ہوا ہو گا ورنہ آپ جیسا خشوع و خضوع کسے نصب ہو گا؟
➍ مصنف رحمہ اللہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ منقش کپڑے میں نماز ہو سکتی ہے۔ آپ نے نماز دہرائی نہیں۔ ویسے بھی دھاری دار کپڑا پہننا منع نہیں۔ پہنا ہوا یا جائے نماز کا کپڑا دھاری دار ہو تو نماز میں کوئی خرابی لازم نہ آئے گی لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے۔ ہمارے دل اس قدر صاف نہیں ہیں کہ اتنی معمولی سی دھاریاں ہماری نماز کے خشوع و خضوع میں فرق ڈالیں کیونکہ ہمارا خشوع و خضوع پہلے ہی بہت کم ہوتا ہے، البتہ اگر کسی شخص کا لباس یا مصلے کی دھاریوں، رنگوں وغیرہ سے، خشوع و خضوع کم ہوتا ہو تو وہ ایسے کپڑے سے پرہیز کرے۔ آج کل مصلے پر مسجد، مینار اور گنبد وغیرہ کی تصاویر ہوتی ہیں جو نماز کی مناسبت سے ہیں، لہٰذا ان میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس حدیث کی رو سے یہ بھی ناپسندیدہ ہیں، ان سے بھی بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ ایسا کپڑایا مصلیٰ بالکل ناجائز ہے جس میں کسی جاندار کی یا کسی ایسی چیز کی تصویر ہو جس کی پوجا ہوتی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 772   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 915  
´نماز میں (ادھر ادھر) دیکھنے کا بیان۔`
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم کی کر دی چادر لے لی، تو آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! وہ (باریک نقش و نگار والی) چادر اس (کر دی چادر) سے اچھی تھی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 915]
915۔ اردو حاشیہ:
➊ ابوجہم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے۔ ان کا نام عبید یا عامر بن حذیفہ قرشی عدوی آیا ہے۔ ان کی طرف منقش چادر اس لئے بھیجی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ چادر ہدیہ کی تھی۔ [عون المعبود]
➋ لباس، مصلیٰ، فرش یا سامنے کی دیوار وغیرہ اگر ایسی ہو کہ اس کے نقوش سے نماز کے دوران میں الجھن ہوتی ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
➌ نماز کے دوران میں آنکھیں بند کر لینا کسی طرح صحیح نہیں۔ نظر حتی الامکان سجدے کی جگہ پر رہنی چاہیے۔ مگر تشہد میں بیٹھتے ہوئے انگشت شہادت پر ہو تو مستحب ہے۔ [سنن نسائي۔ حديث۔ 1161]
تفصیل کے لئے دیکھئے: [نيل الاوطار باب نظر المصلي اليٰ موضع سحوده۔۔۔ ص 211/2]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 915   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4052  
´ریشم کی حرمت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی تو آپ کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: میری یہ چادر ابوجہم کو لے جا کر دے آؤ کیونکہ اس نے ابھی مجھے نماز سے غافل کر دیا (یعنی میرا خیال اس کے بیل بوٹوں میں بٹ گیا) اور اس کی جگہ مجھے ایک سادہ چادر لا کر دو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوجہم بن حذیفہ بنو عدی بن کعب بن غانم میں سے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4052]
فوائد ومسائل:
کوئی ایسی چیز جو اللہ تعالی کی عبادت کے دوران میں مشغولیت کا باعث ہو، اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔
بالخصوص رسول ؐ کے لئے منقش لباس بھی حارج ہوتا تھا، اس لیے آپ نے مسلمانوں کو مساجد کے سلسلے میں حکم دیا ہے کہ ان کو منقشنہ بنایا جائے اسی طرح شوخ رنگ کے لباس اور مصلے سے بھی بچنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4052   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3550  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان بیل بوٹوں نے غافل کر دیا، اسے ابوجہم کو کے پاس لے کر جاؤ اور مجھے ان کی انبجانی چادر لا کر دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3550]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مرد کے لیے نقش و نگار والا کپڑا پہننا جائز ہے بشرطیکہ وہ اس قسم کا نہ ہو جسے زنانہ کپڑا قرار دیا جاتا ہو۔

(2)
نمازی کے سامنے ایسے نقش و نگار نہیں ہونے چاہیں جو نمازی کی توجہ اپنی طرف مبذول کریں، اس لئے رنگ برنگے مصلوں پر نماز پڑھنا مناسب نہیں۔

(3)
مسجد کی دیواروں کو طرح طرح سے مزین کرنا بھی درست نہیں، اس سے بھی نمازی کی توجہ نمار سے ہٹ جاتی ہے۔

(4)
مرد کے لئے سادہ لباس پہننا بہتر ہے۔

(5)
کسی کا تحفہ واپس کرنا پڑے تو عذر واضح کر دینا چاہیے۔

(6)
رسول اللہ ﷺنے صحابی سے دوسری چادر اس لئے طلب فرمالی کہ ہدیہ واپس ہونے کی وجہ سے ان کی دل شکنی نہ ہو۔

(7)
مقتدیوں اور ساتھیوں کے جذبات مجروح کرنے سے حتی الوسع اجتنا ب کرنا چاہیے۔

(8) (انجانیہ)
ایک قسم کی سادہ، نقش و نگار کے بغیر چادر ہوتی تھی جو بہت معمولی درجے کے موٹے کپڑے کی ہوتی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3550   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:172  
فائدہ:
اس میں یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نمازی کو نماز سے مشغول کر دے اس کو دور کرنا ضروری ہے۔ موجودہ دور میں مختلف ڈیزائنوں کے جائے نماز اور قالین اس حکم میں آتے ہیں، جائے نماز اور قالین بالکل سادہ ہونے چاہئیں۔ اسی طرح مساجد میں مختلف ڈیزائنوں کے محراب بھی اس حکم میں آتے ہیں، افسوس کہ امت مسلمہ مساجد و مدارس کی تعمیر میں بعض فضول کاموں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے صرف کرتے ہیں، لیکن مسجد و مدرسہ میں کام کرنے والے عالم دین کو معقول تنخواہ نہیں دیتے، اور اکثر یہی صورت حال ہے۔ اس طرح کے لوگوں سے بطور تنبیہ عرض ہے کہ کبھی مسجد نے آپ کو قرآن مجید نہیں پڑھایا، اور نہ ہی اس نے درس حدیث دیا ہے، اور نہ ہی وہ آپ کے پیچھے چل کر جاتی ہے۔ ہاں وہ شخص جو مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو قرآن و حدیث کی دعوت دیتا ہے، وہ آپ کے گھر چل کر دینی دعوت کی غرض سے آتا ہے، اس کا احترام کریں اور اس کی ضروریات پر خصوصی توجہ دیں، مساجد پر بطور فخر پیسہ خرچ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 172   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1238  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک منقش چادر میں نماز پڑھی اور فرمایا: اس کے بیل بوٹوں نے مجھے اپنےمیں منہمک (مشغول) کرنا چاہا، اس کو ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے اس سے اَنْبِجَانِی (ساده) چادر لا دو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1238]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
خَمِيْصَةٌ:
مربع شکل کی اونی چادر۔
(2)
أَعْلاَم:
علم کی جمع ہے۔
نقش ونگار۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1238   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1240  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک پھول دار اونی چادر تھی، آپﷺ نماز میں اس میں مشغول ہو جاتے، آپﷺ نے وہ ابوجہم کو دے دی اور اس کی سادہ انبجانی لوئی لے لی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1240]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ کو ایک منقش چادرحضرت ابوجہم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحفتاً دی تھی،
آپﷺ جب اس میں نماز پڑھنے لگے تو آپﷺ کی توجہ اور دھیان اس کے نقش و نگار کی طرف ہونے لگا،
آپﷺ نے نماز سے اس غفلت کو پسند نہ فرمایا اور یہ چادر حضرت ابوجہم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واپس کر کے اس سے سادہ چادر لے لی،
تاکہ تحفہ سے واپسی سے اس کی حوصلہ شکنی اور دل آزاری نہ ہو،
اس حدیث سے معلوم ہوا،
مساجد کو ایسے نقش و نگار اور فرش و فروش سے بچانا چاہیے جو نمازیوں کی توجہ اور دلجمعی میں خلل کا باعث بنے اور ایسی سجاوٹ وآرائش جو عام معمول بن چکی ہو جس کی وجہ سے نمازیوں کی توجہ میں خلل نہ پڑتا ہو،
اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1240   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 752  
752. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ ایسی چادر پہن کر نماز پڑھی جس پر کچھ نقوش تھے۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: مجھے اس چادر کے نقش و نگار نے نماز سے غافل کر دیا تھا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے سادہ چادر لا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:752]
حدیث حاشیہ:
یہ چادر ابوجہم نے آپ ﷺ کو تحفہ میں دی تھی۔
مگراس کے نقش ونگار آپ کو پسندنہیں آئے کیونکہ ان کی وجہ سے نماز کے خشوع وخضوع میں فرق آرہاتھا۔
اس لیے آپ نے اسے واپس کرا دیا۔
معلوم ہوا کہ نماز میں غافل کرنے والی کوئی چیز نہ ہونی چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 752   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:373  
373. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ منقش چادر میں نماز پڑھی۔ آپ کی ایک نظر اس کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا: میری اس چادر کو ابوجہم کے پاس واپس لے جاؤ اور ابوجہم سے اس کی انبجانی (سادہ) چادر لے آو کیونکہ اس منقش چادر نے مجھے ابھی اپنی نماز میں دوسری طرف متوجہ کر دیا تھا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نے اس چادر کے نقش و نگار کی طرف بحالت نماز نظر کی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھے فتنے میں نہ ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:373]
حدیث حاشیہ:

منقش کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کے متعلق عنوان میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، لیکن جو روایت پیش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ہو جائے گی، کیونکہ نماز کے لیے تو کپڑے کا ساتر اورطاہر ہونا ضروری ہے جو اس صورت میں بھی حاصل ہے، لیکن اگر نمازی یہ خیال کرے کہ ایسا کپڑا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
چنانچہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی ایک نظر کپڑے کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز کو تو جاری رکھا نہ اسے ختم کیا اور نہ پڑھنے کے بعد اس کا اعادہ فرمایا۔
امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اس قسم کے کپڑے میں نماز ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال میں فتنے کا سامان مہیا ہوتا ہو تو سادہ کپڑا استعمال کرنا اولیٰ ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو اشیاء بھی دوران نماز میں نمازی کے خشوع میں خلل انداز ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
منقش جائے نماز کا حکم بھی یہی ہے۔

ابن شہاب عن عروہ والی پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوئے۔
دوسری ہشام عن عروہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو فتنے میں پڑنے کا اندیشہ لاحق ہوا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں باتوں کو متضاد خیال کر کے پہلی روایت کی بایں طور تاویل کی ہے کہ قریب تھا کہ آپ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہو جاتے، یعنی پہلی روایت کا مطلب دوسری روایت کے مطابق کردیا ہے کہ آپ کو غفلت بھی پیش نہیں آئی تھی۔
(فتح الباري: 626/1)
لیکن اس حدیث سے بعض شارحین نے ایک مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ نماز میں کوئی غیر متعلق خیال آنے پر نماز خراب نہیں ہوتی۔
اگر رسول اللہ ﷺ کو کسی درجے میں بھی غفلت پیش نہیں آئی تھی، بلکہ صرف اس کا خوف وخطرہ ہی تھا تو استدلال مذکور کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟اس لیے بہتر توجیہ یہ ہے کہ غفلت کا تحقق ووجود تو تسلیم کر لیا جائے، لیکن یہ غفلت فتنے میں پڑجانے کے درجے سے بہت کم تھی جس میں غیر متعلق خیال و فکر میں استغراق کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ صورت رسول اللہ ﷺ کو پیش نہیں آئی بلکہ اس کا صرف اندیشہ پیدا ہوا ممکن ہے نقش و نگار کی طرف توجہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت گری کا فکرو خیال پیدا ہوا ہو جسے آپ نے اپنے مرتبہ عالیہ کی نسبت سے ایک درجے کا نقص خیال فرمایا ہو۔
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اللہ کی طرف توجہ سے ہٹ گئے ہوں، کیونکہ بعض لوگ دو کاموں میں بیک وقت مشغول ہوتے ہیں اور کسی ایک امرکی ادائیگی میں نقص واقع نہیں ہوتا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معمولی درجے کا فکری اشتعال مانع صلاۃ نہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔
نیز اگر نماز میں نماز سے باہر کی کسی چیز کا خیال آجائے تو نماز درست ہے، بعض سلف سے جو منقول ہے کہ اس سے نماز کی صحت پر اثر پڑے گا وہ معتبرنہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع اور دل کا پوری طرح متوجہ ہونا مطلوب ہے لہٰذا نمازی کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے قصد وارادے سے دوران نماز میں دوسرے خیالات نہ آنے دے اور اگر خود بخود آجائیں تو ان کی طرف توجہ نہ دے۔
(عمدة القاري: 314/3)

رسول اللہ ﷺ نے اس منقش چادر کو فتنے کا سامان قراردیا تو آپ نے اسے ابو جہم ؓ کو کیوں واپس کیا؟ جب وہ آپ کے لیے باعث فتنہ تھی تو حضرت ابو جہم ؓ کے لیے تو وہ بدرجہ اولیٰ باعث فتنہ ہو سکتی تھی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اس کی دلجوئی کے لیے اس چادر کو واپس کیا تاکہ وہ اسے کسی اور مصرف میں لا سکے اس لیے واپس نہیں کیا کہ وہ اس میں نماز ادا کرے۔
بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابو جہم ؓ چونکہ نابینا تھے اس لیے منقش کپڑا ان کے حق میں سامان فتنہ نہ تھا۔
نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کا اثر رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہو اس کا اثر عوام کے دل پر بھی ہو، کیونکہ آپ کا قلب مبارک صاف آئینے کی طرح تھا۔
اس لیے وہ کمال صفائی اور غایت لطافت کی بنا پر ظاہری نقوش کا اثر جلدی قبول کر لیتا تھا، اس کے برعکس اگر آئینے پر صفائی نہ ہو تو وہ معمولی نقوش کو قبول ہی نہیں کرتا۔
اس لیے آپ نے وہ منقش چادر ابو جہم کو واپس کردی کہ اگر وہ استعمال کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں ہو گا۔

رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر ابو جہم کو اس لیے واپس کی تھی کہ اسی نے آپ کو بطور ہدیہ بھیجی تھی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک منقش چادر بطور تحفہ بھیجی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عطیہ بھیجنے والے کو اگر اس کا عطیہ واپس کردیا جائے اور وہ خود اسے واپس لینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی دلجوئی کے لیے اس منقش چادر کی جگہ سادہ چادر لینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنے ہدیے کی واپسی پر دل برداشتہ نہ ہو۔
(شرح ابن بطال: 37/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 373   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:752  
752. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ ایسی چادر پہن کر نماز پڑھی جس پر کچھ نقوش تھے۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: مجھے اس چادر کے نقش و نگار نے نماز سے غافل کر دیا تھا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے سادہ چادر لا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:752]
حدیث حاشیہ:
(1)
التفات کی کئی قسمیں ہیں:
٭ گوشۂ چشم سے ادھر ادھر دیکھنا، یہ تو سب کے نزدیک نماز میں جائز ہے، لیکن ضرورت کے بغیر ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے۔
٭چہرہ پھیر کر ادھر ادھر دیکھنا لیکن سینہ قبلہ رخ رہے، یہ فعل مکروہ یا حرام ہے۔
شدید ضرورت کے پیش نظر ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔
٭دائیں بائیں اس طرح دیکھنا کہ سینہ بھی قبلے کی طرف سے ہٹ جائے، ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
(2)
اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے اس لیے پیش کیا ہے کہ اس قسم کے نقش ونگار جب نمازی دیکھے گا تو یقیناً اس کی توجہ بھی کچھ بٹ جائے گی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے اتار کر واپس کردیا۔
اور یہ بھی ایک قسم کا التفات ہی ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں فرمایا کیونکہ ایسی چیزوں کے استعمال سے نمازی کے خشوع میں فرق آجاتا ہے جو نمازی کی روح کے منافی ہے۔
(فتح الباري: 304/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 752   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5817  
5817. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک منقش چادر میں نماز پڑھی آپ نے (دوران نماز میں ہی) اس کے نقش و نگار پر ایک نظر ڈالی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: میری اس منقش چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اسے واپس کر دو کیونکہ اس نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کر دیا تھا۔ اور وہاں سے ابو جہم کی سادہ چادر لے آؤ۔ یہ ابو حیہم بن حذیفہ بن غانم۔ عدی بن کعب کے قبیلے سے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5817]
حدیث حاشیہ:
(1)
کمبل میں نقش و نگار ہو اور بیل بوٹوں سے گل کاری کی گئی ہو تو اسے خمیصہ کہا جاتا ہے اور انجبانیہ سادہ چادر کو کہتے ہیں جس میں نقش و نگار نہ ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نقش و نگار کی وجہ سے ناپسند فرمایا کیونکہ اس کے نقش و نگار سے نماز میں خلل آتا تھا، لیکن اس نماز کو دوبارہ نہیں پڑھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی چادر اوڑھ کر اگر نماز پڑھی جائے تو نماز ہو جاتی ہے اور اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال فرمایا، اس لیے اس کا اوڑھنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5817   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.