(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا العطاف، عن موسى بن إبراهيم، عن سلمة بن الاكوع، قال: قلت: يا رسول الله، إني لاكون في الصيد وليس علي إلا القميص، افاصلي فيه؟ قال:" وزره عليك ولو بشوكة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ، عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قال: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَأَكُونُ فِي الصَّيْدِ وَلَيْسَ عَلَيَّ إِلَّا الْقَمِيصُ، أَفَأُصَلِّي فِيهِ؟ قَالَ:" وَزُرَّهُ عَلَيْكَ وَلَوْ بِشَوْكَةٍ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار پر جاتا ہوں اور میرے جسم پر سوائے قمیص کے کچھ نہیں ہوتا، تو کیا میں اس میں نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں پڑھ لو) اور اس میں ایک تکمہ لگا لو گرچہ کانٹے ہی کا ہو“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 766
766 ۔ اردو حاشیہ: قمیص اگر لمبی ہو، گھٹنوں سے نیچی ہو کہ کسی بھی رکن کی ادائیگی میں گھٹنے آگے یا پیچھے سے ننگے نہ ہوتے ہوں تو اس احتیاط کے ساتھ اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں کہ سامنے کے گلے میں بٹن لگا لیا جائے تاکہ سامنے سے ستر نہ کھلے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 766
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 632
´آدمی ایک کرتے (قمیص) میں نماز پڑھے تو کیسا ہے؟` سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکاری ہوں، کیا میں ایک کُرتے (قمیض) میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اور اسے ٹانک لیا کرو (بٹن لگا لیا کرو)، خواہ کسی کانٹے سے ہی سہی۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 632]
632۔ اردو حاشیہ: ظاہر ہے کہ اس سے مراد عرب کی خاص لمبی قمیص ہے، اگر اس کے نیچے شلوار یا چادر نہ بھی ہو تو نماز جائز ہے، بشرطیکہ ستر پوری طرح ڈھکا ہوا ہو، اگر کھلنے کا اندیشہ ہو تو اسے باندھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 632