(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا حميد، عن انس، ان سائلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن وقت الصبح فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا فاذن حين طلع الفجر، فلما كان من الغد اخر الفجر حتى اسفر، ثم امره فاقام فصلى، ثم قال:" هذا وقت الصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصُّبْحِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَذَّنَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَخَّرَ الْفَجْرَ حَتَّى أَسْفَرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا وَقْتُ الصَّلَاةِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر کی اذان کا وقت پوچھا، تو آپ نے بلال کو حکم دیا، تو انہوں نے فجر طلوع ہونے کے بعد اذان دی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو انہوں نے فجر کو مؤخر کیا یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا، پھر آپ نے انہیں (اقامت کا) حکم دیا، تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ نے نماز پڑھائی پھر فرمایا: ”یہ ہے فجر کا وقت“۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 888
´مسواک کی فضیلت` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكْثَرْتُ عَلَيْكُمْ فِي السِّوَاكِ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے مسواک کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 888]
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب سے ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمعہ کے دن مسواک کرنے کی فضیلت کو اجاگر فرما رہے ہیں۔ جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اگر امت پر شاق نہ ہوتا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم کرتا، تو اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ جب تمام نمازوں کے لئے مسواک واجب کر دی جاتی تو یقیناً نماز جمعہ میں بھی بالاولیٰ واجب ہو جاتی کیونکہ جمعہ کی نماز میں پانچوں نمازوں سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور بڑا اجتماع ہوا کرتا ہے۔
دوسری حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم سے مسواک کرنے کی خوبی بارہا کہی۔ اس میں مناسبت یہ ہے کہ مسواک میں غفلت اور سستی نہ کرو مسواک کی عادت ڈالو لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی خوبی بار بار واضح فرمائی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمیشہ مسواک کو استعمال کرنا مشکل ہے، لہٰذا ایک دن مسواک کا متعین کرنا مشکل نہیں باقی دنوں میں بہتر دن جمعہ کا ہے اور جمعہ کو روز خوشبو لگانا صاف ستھرے کپڑے پہننا مشروع ہے اور اسی دن مسواک کا بھی استعمال بہترین عمل میں داخل ہے۔
◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس حدیث سے استدلال اور مطابقت (ترجمۃ الباب کی) یہ ہے کہ جب مسواک کرنا پنج وقتہ نمازوں میں ثابت ہوا تو جمعہ کے روز جس میں غسل وغیرہ ہے تو مسواک کرنا بالاولیٰ ثابت ہو گا۔“[التوضيح، ج8، ص421]
تنبیہ: مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ابن حزم رحمہ اللہ اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں کہ مسواک کرنا جمعہ کے روز فرض ہے، اور محدث اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منقول ہے کہ: «هو واجب لكل صلاة فمن تركه عامداً بطلت صلاته» مسواک کرنا واجب ہے ہر نماز کے لیے پس جس نے جان کر اسے چھوڑ دیا تو اس کی نماز باطل ہو گی۔ [فتح الباري، ج8، ص123]
◈ لیکن ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس قول کی نسبت ابن راھویہ کی طرف درست نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج8، ص123] لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح سے ہوئی کہ عام نمازوں میں مسواک کرنا مشروع ہے تو جمعہ کے روز بھی بالاولیٰ مشروع ہو گا۔ کیونکہ اس دن نظافت، غسل اور عطر کے استعمال کی خاص ترغیب موجود ہے۔
تیسری حدیث جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت تہجد میں مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے تو اس میں تطبیق یہ ہے کہ رات کی نماز تنہا نماز ہے اور جمعہ کی نماز میں خوشبو کا استعمال کا حکم ہے تو لہٰذا اس نماز میں بطریق اولی مسواک کرنے کا بھی حکم شامل ہو گیا لہٰذا مطابقت اس حدیث سے باب کی ظاہر ہو گئی۔ اس حدیث پر مزید بحث إن شاء اللہ باب «طول القيام فى صلاة الليل» میں آئے گی۔
فائدہ نمبر ➊ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «الحكمة فى استحباب السواك عند القيام إلى الصلاة كونها حالاً تقرب إلى الله»[فتح الباري ج2 ص478] ”مسواک کرنے کی حکمت نماز میں اس لیے ہے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔“
◈ ابن دقیق العید مزید فرماتے ہیں کہ: ”مسواک کرنے میں بہت زیادہ ستھرائی اور عبادت کا شرف کا اظہار ہوتا ہے۔“ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے کئی ایک اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ آپ نے مذکورہ حدیث پر فقھی تبصرہ کرتے ہوئے 32 مسائل کو اجاگر فرمایا ہے۔ دیکھئے: [شرح الالمام، ج3، ص53 تا 91]
فائدہ نمبر ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو ہر وقت منہ صاف رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیا ہے۔ برش سے دانتوں کی اچھی طرح صفائی ممکن نہیں اگر ہو بھی جائے لیکن اس کے بعد دانتوں پر میل (PLAQUE) کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ مسواک ایک ایسی چیز ہے جو دانتوں کے جملہ امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔ پاکستان میں 1985ء میں دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی مختلف پودوں کی شاخوں پر جدید طبّی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات سے مسواک پیلو کے ضمن میں نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے اس مقصد کے لیے استعمال کی جانے والی شاخوں کا خروحیاتی طور پر جراثیم کے خلاف تقابلی جائزہ لیا گیا ان نباتات کے نام حسب ذیل ہیں۔ ① نیم (MELIA AZADIRACHTA LINN) ② کیکر (ACACIA ARABICA WILLD) ③ پھلاہی (ACACIA MODESTA WILLD) ④ مسواک / پیلو (SELVADORA PSICA LINN) ⑤ کرنج (PONGAMIA GLABRA VENT) ان تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر افریقی ممالک، جنوبی ایشیا، امریکہ کے گرم علاقے اور شمالی علاقوں میں درج بالا نباتات کی شاخیں اور جڑیں دانتوں اور منہ کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ مسواک یا پیلو کو مجموعی طور پر لعاب دہن سے حاصل کئے گے بیکٹریا کے خلاف موثر پایا گیا اور اس کے مانع جراثیم ((ANTI MICROBIAL) جراثیم کش (GMICDAL) اور مانع فخج (FUNGICIDAL) اثرات کا میعار بقایہ تمام نبات سے بہتر پایا گیا۔ (MEDICAL AND GENAL PHYSIOLOGY)
◈ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے۔ ① اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔۔۔ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندر تک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے۔“[حجة الله البالغة ج1 ص183]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 6
´مسواک کثرت سے کرنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے مسواک کے سلسلے میں تم لوگوں سے بارہا کہا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 6]
6۔ اردو حاشیہ: الشرح الکبیر کی تخریج کرتے ہوئے علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ مسواک سے متعلق آخری حدیث کے بعد فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں مصنف نے سو سے زیادہ احادیث ذکر کی ہیں اور یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ پھر کہتے ہیں: یہ تعجب کی بات ہے، ایک ہی سنت سے متعلق اس قدر احادیث منقول ہیں جبکہ بہت سے لوگ بلکہ اکثر فقہاء اس سنت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ دیکھیے: [البدر المنیر: 223/3] اگرچہ یہ تعداد صحیح و ضعیف ہر قسم کی احادیث سمیت بنتی ہے، لیکن ان سے اس عظیم سنت کی اہمیت بالکل واضح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 6