(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، عن هشيم، قال: انبانا منصور، عن خبيب بن عبد الرحمن، عن عمته انيسة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اذن ابن ام مكتوم فكلوا واشربوا، وإذا اذن بلال فلا تاكلوا ولا تشربوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هُشَيْمٍ، قال: أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمَّتِهِ أُنَيْسَةَ، قالت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَذَّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، وَإِذَا أَذَّنَ بِلَالٌ فَلَا تَأْكُلُوا وَلَا تَشْرَبُوا".
انیسہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں تو کھاؤ پیو، اور جب بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند کر دو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ ان بیشتر روایتوں کے خلاف ہے جن میں ہے کہ بلال کی اذان پہلے ہوتی تھی، چنانچہ ابن عبدالبر وغیرہ نے کہا ہے کہ اس روایت میں قلب ہوا ہے، اور صحیح وہی ہے جو بیشتر روایتوں میں ہے، امام بیہقی نے ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: اگر یہ روایت صحیح ہے تو ممکن ہے ان دونوں کے درمیان باری رہی ہو، تو جب بلال رضی اللہ عنہ کی باری رات میں اذان کہنے کی ہوتی تو وہ رات میں اذان کہتے، اور جب ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہوتی تو وہ رات میں کہتے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 641
641 ۔ اردو حاشیہ: سابقہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بلال پہلی اذان کہتے تھے اور ابن ام مکتوم دوسری۔ اس روایت میں الٹ ہے کہ ابن ام مکتوم پہلی اذان کہتے تھے اور بلال دوسری۔ ممکن ہے کہ وہ آپس میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے باری بدلتے رہتے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلی اذان کہتے ہوں اور حضرت عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دوسری، پھر بعد میں بلال رضی اللہ عنہ کے ذمے دوسری اذان ہو گئی ہو اور عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ذمے پہلی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک ان کا اصل نام عمرو ہے جبکہ انہوں نے عبداللہ بھ صیغۂ تمریض کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دیکھیے: [تقريب التهذيب: 734/1 و 552/2] جبکہ حافظ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس حدیث میں قلب واقع ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ درست روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ درست نہیں بلکہ حدیث صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح الباري: 103/2] واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 641