● صحيح البخاري | 3665 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر إن أحد شقي ثوبي يسترخي إلا أن أتعاهد ذلك منه فقال رسول الله إنك لست تصنع ذلك خيلاء |
● صحيح البخاري | 5784 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر يا رسول الله إن أحد شقي إزاري يسترخي إلا أن أتعاهد ذلك منه فقال النبي لست ممن يصنعه خيلاء |
● صحيح البخاري | 5783 | عبد الله بن عمر | لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء |
● صحيح البخاري | 5791 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه مخيلة لم ينظر الله إليه يوم القيامة |
● صحيح مسلم | 5461 | عبد الله بن عمر | الذي يجر إزاره من الخيلاء شيئا لا ينظر الله إليه يوم القيامة |
● صحيح مسلم | 5455 | عبد الله بن عمر | الذي يجر ثيابة من الخيلاء لا ينظر الله إليه يوم القيامة |
● صحيح مسلم | 5457 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة |
● صحيح مسلم | 5453 | عبد الله بن عمر | لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء |
● صحيح مسلم | 5459 | عبد الله بن عمر | من جر إزاره لا يريد بذلك إلا المخيلة فإن الله لا ينظر إليه يوم القيامة |
● جامع الترمذي | 1731 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة |
● جامع الترمذي | 1730 | عبد الله بن عمر | لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه خيلاء |
● سنن أبي داود | 4085 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر إن أحد جانبي إزاري يسترخي إني لأتعاهد ذلك منه قال لست ممن يفعله خيلاء |
● سنن النسائى الصغرى | 5330 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه من مخيلة فإن الله لم ينظر إليه يوم القيامة |
● سنن النسائى الصغرى | 5330 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة |
● سنن النسائى الصغرى | 5338 | عبد الله بن عمر | من جر ثوبه من الخيلاء لا ينظر الله إليه يوم القيامة قال أبو بكر يا رسول الله إن أحد شقي إزاري يسترخي إلا أن أتعاهد ذلك منه فقال النبي إنك لست ممن يصنع ذلك خيلاء |
● سنن ابن ماجه | 3569 | عبد الله بن عمر | الذي يجر ثوبه من الخيلاء لا ينظر الله إليه يوم القيامة |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 417 | عبد الله بن عمر | ا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه بطرا |
● بلوغ المرام | 1249 | عبد الله بن عمر | لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلا |
● المعجم الصغير للطبراني | 614 | عبد الله بن عمر | من جر ثيابه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة |
● مسندالحميدي | 650 | عبد الله بن عمر | إذا جئت فاستأذن، فإذا أذن لك فسلم إذا دخلت |
● مسندالحميدي | 651 | عبد الله بن عمر | لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء |
● مسندالحميدي | 664 | عبد الله بن عمر | إنك لست منهم |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5338
اردو حاشہ:
(1) ”ایک بالشت“ یعنی نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے تبھی پاؤں ننگے ہوں گے۔ اگر ٹخنوں سے بالشت نیچے ہو تو پاؤں ڈھانکے جائیں گے۔ ”ایک ہاتھ“ سے مراد بھی نصف پنڈلی سے نیچے ایک ہاتھ ہے۔ اس صورت میں دامن زمین پرگھسیٹنے لگے گا اور پاؤں بھی ننگے نہیں ہوں گے خواہ عورت چل ہی رہی ہو۔
(2) ”ننگے ہوں“ گویا عورتوں کے لیے مناسب ہے کہ ان کے قدم ننگے نہ ہوں البتہ قدم ڈھانکنا ضروری نہیں کیونکہ آپ نے ایک بالشت نیچے ہی کو ضروری قرار دیا ہے۔
(3) ”ایک ہاتھ“ عربی میں لفظ ذراع استعمال کیا گیا ہے یعنی کہنی کی ہڈی کے کنارے سے درمیانی انگلی کے بالائی کنارے تک عربی میں اس فاصلے کو ذراع کہتے ہیں۔ اردو میں اسے ہاتھ کہہ لیتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5338
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1249
´ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا`
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلا . متفق عليه»
”ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف دیکھے گا نہیں جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔“ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1249]
تخریج:
[بخاري: 5791، 5783]،
[مسلم: اللباس 5461]،
[بلوغ المرام: 1249]،
[تحفة الاشراف 466/5، 347/5، 215/6]
مفردات:
«الخيلاء» تکبر یہ مصدر ہے۔ گھوڑوں کو «خيل» اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی چال میں تکبر پایا جاتا ہے۔ [قاموس]
فوائد:
”دیکھے گا نہیں“
کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ کیونکہ اللہ کی نظر سے کوئی چیز غائب تو ہو ہی نہیں سکتی وجہ یہ ہے کہ متواضع مسکین مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے متکبر و مغرور اس سے محروم ہو جا تا ہے بلکہ قہر کی نظر کا حقدار بن جاتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا» [4-النساء: 36]
”یقیناًً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں فرماتا۔“
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب» [مسلم 71/1]
”تین آدمی ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے عذاب الیم ہے (کپڑا) لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سامان بیچنے والا۔“
➋ کپڑا لٹکانے پر یہ وعید عورتوں اور مردوں سب کے لئے ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث سے یہی بات سمجھی چنانچہ ترمذی اور نسائی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں ساتھ ہی یہ الفاظ ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بالشت لٹکا لیا کریں۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔ [سنن ترمذي اللباس]
اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز کپڑا اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے چلتی ہیں، خصوصا شادی کے موقعہ پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ یورپی اقوام میں اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کی عورتوں میں بھی یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ وہ شادی کے موقعہ پر کئی گز لمبا غرارہ پہنتی ہیں جو پیچھے گھسٹتا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہیں۔ نمود و نمائش اور کبر و نخوت کی ماری ہوئی یہ عورتیں بھی اللہ کی نگاہ لطف سے محروم ہیں۔ عورت مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے نہ رکھے بلکہ پاؤں کو چھپائے مگر ایک ہاتھ (دو بالشت) سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے بہتر یہ ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے۔
➌ ”جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر کسی کا کپڑا نیچے چلا جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إنك لست ممن يصنعه خيلاء» ”تم ان لوگوں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں۔“ [بخاري 5784]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «إلا أن أتعاهد ذلك منه» ”سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں۔“ یعنی جب میں اس سے غافل ہو جاؤں تو وہ نیچے چلی جاتی ہے۔ احمد کے ہاں معمر عن زید بن اسلم کی روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: «إن إزارى يسترخى أحيانا»، ”میری چادر کبھی کبھی نیچے ڈھلک جاتی ہے۔“ معلوم ہوتا ہے کہ چلنے یا ہلنے جلنے سے ان کے اختیار کے بغیر چادر کی گرہ کھل جاتی تھی جب خاص خیال رکھتے تو نہیں ڈھلکتی تھی کیونکہ جب بھی ڈھلکنے لگتی اسے کس لیتے تھے۔ ابن سعد نے طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر عن عائشہ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: «كان أبوبكر أحنى لا يستمسك إزاره یسترخى عن حقويه» ”ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قد جھکا ہوا تھا اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی تھی۔“ [فتح الباري 266/10]
اب صاف ظاہر ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکا تے تھے کبھی کبھی بے توجھی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی تھی۔ اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جائے تو نہ یہ تکبر ہے نہ اس پر مواخذہ ہے۔
➍ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے اور کہے کہ میں نے تکبر سے نہیں لٹکایا تو اس کی یہ بات درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی چادر کا مقام پنڈلی کا عضلہ (موٹا حصہ) مقرر فرمایا اس کے بعد پنڈلی کا نصف مقرر فرمایا زیادہ سے زیادہ ٹخنے کے اوپر تک رکھنے کی اجازت دی اور اس سے نیچے لٹکانا منع فرمایا بطور دلیل چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔
«عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار» [صحيح بخاري]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چادر کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ میں ہے۔“
«عن حذيفة قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بعضلة ساقي او ساقه فقال: ”هذا موضع الإزار“ فإن ابيت فاسفل فإن ابيت فلا حق للإزار فى الكعبين . قال ابوعيسى: هذا حديث حسن صحيح» [ترمذي اللباس 1783]
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی یا اپنی پنڈلی کا عضلہ (موٹا حصہ) پکڑ کر فرمایا: چادر کی جگہ یہ ہے اگر نہ مانو تو اس سے کچھ نیچے اگر یہ بھی نہ مانو تو چادر کا ٹخنوں میں کوئی حق نہیں۔“ ابوعیسیٰ (ترمذی) نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث احمد، نسائی، ابن ماجہ میں بھی ہے اور دیکھئے صحیح الترمذی 1457
ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام نے فرمایا:
«إزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو فى النار من جر إزاره بطرا لم ينظر الله إليه» [صحيح - مالك، أحمد، أبوداود، ابن ماجه، ابن حبان، بيهقي، صحيح الجامع 921]
”مومن کے چادر باندھنے کی حالت نصف پنڈلی تک ہے اور اس کے اور ٹخنوں کے درمیان اس پر کوئی گناہ نہیں۔ جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے جو شخص تکبر سے اپنی چادر لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔“
➎ جان بوجھ کر چادر لٹکانا تکبر میں شامل ہے خواہ ایسا کرنے والا یہ کہے کہ میں نے اسے تکبر سے نہیں لٹکایا۔ جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کئی باتوں کے علاوہ ان سے فرمایا:
«وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة» [أبوداود 4084، نسائي، حاكم، صحيح أبى داود 3442]
”اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اونچی رکھو اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور چادر لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ تکبر سے ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو یقیناًً پسند نہیں فرماتا۔“ اور دیکھیے [صحيح ابي داود 3442]
➏ اگر کوئی شخص اپنی پنڈلیاں ٹیڑھی یا باریک ہونے کی وجہ سے چادر لٹکائے تو یہ بھی ناجائز ہے۔
«عن الشريد رضى الله عنه قال: أبصر رسول الله رجلا يجر إزاره فأسرع إليه أو هرول فقال: ”إرفع إزارك واتق الله“، قال: إني أحنف تصطك ركبتاي . فقال: ”ارفع إزارك كل خلق الله حسن“، فما رؤي ذلك الرجل بعد إلا إزاره يصيب أنصاف ساقيه .» [مسند أحمد 390/4]
شرید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھا آپ اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئے اور فرمایا اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس نے کہا: میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں، آپ نے فرمایا اپنی چادر اوپر اٹھاؤ کیونکہ اللہ عزوجل کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہی خوبصورت ہے تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا، اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی۔“
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی بخاری اور مسلم کے راوی ہیں۔ [سلسلة الأحاديث الصحيحة 1441]
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اس صحابی کا چادر لٹکانا تکبر کی وجہ سے نہیں تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں تکبر پائے جانے کا گمان ہو سکتا تھا۔
«عن عمرو بن فلان الأنصاري قال بينا هو يمشي قد أسبل إزاره إذ لحقه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أخذ بناصية نفسه وهو يقول: اللهم عبدك، ابن عبدك، ابن أمتك قال عمرو: قلت: يا رسول الله! إني رجل حمش الساقين فقال: يا عمرو! إن الله عز وجل قد أحسن كل شيء خلقه يا عمرو! وضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأربع أصابع من كفه اليمنى تحت ركبة عمرو فقال: يا عمرو! هذا موضع الإزار ثم رفعها ثم وضعها تحت الثانية فقال: يا عمرو! هذا موضع الإزار» [مسند أحمد 200/4]
عمرو بن فلان الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنی چادر لٹکائے ہوئے چل رہے تھے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ملے آپ نے اپنی پیشانی کے بال پکڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے، اے اللہ! تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں (لٹکی ہوئی چادر سے ظاہر ہونے والے تکبر کی طرف توجہ دلانے کے لئے اپنی عاجزی کا اظہار فرما رہے تھے) عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (یہ سن کر میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں پتلی پنڈلیوں والا آدمی ہوں (اس لئے چادر اٹھا رکھی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! یقیناًً اللہ عزوجل نے جو چیز پیدا کی ہے خوبصورت پیدا کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں ہتھیلی کی چار انگلیاں عمرو کے گھٹنے کے نیچے رکھ کر فرمایا: اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے پھر انگلیاں اٹھا کر دوبارہ اس سے نیچے رکھ کر فرمایا: اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے، پھر انگلیاں اٹھا کر دوبارہ اس سے نیچے رکھیں اور فرمایا اے عمرو! یہ چادر کی جگہ ہے۔“
یہ حدیث طبرانی نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے عمرو بن زرارہ کا یہ واقعہ اپنا چشم دید بیان کیا ہے۔ مسند احمد کی روایت جو اوپر بیان ہوئی ہے اس میں عمرو نے خود اپنا واقعہ بیان کیا ہے مگر اس میں عمرو بن فلاں بیان ہوا ہے یہ وہی عمرو بن زرارہ ہیں اور طبرانی نے خود عمرو بن زرارہ سے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [فتح 275/10]
➐ جو شخص جان بوجھ کر چادر یا شلوار ضرورت سے بڑی سلواتا ہے اور اسے ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے تکبیر کے علاوہ اس کے ناجائز ہونے کی چند اور وجھیں بھی ہیں۔
پہلی وجہ:
اسراف (فضول خرچی) ہے جو کہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
«وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ» [7-الأعراف:31]
”اور فضول خرچی نہ کرو وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“
«وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ٭ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا» [17-الإسراء:26]
”اور فضول خرچی نہ کرو بلاشبہ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کا ناشکرا ہے۔“
دوسری وجہ:
عورتوں سے مشابہت ہے جو اس میں اسراف سے بھی زیادہ نمایاں ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن المرأة تلبس لبسة الرجل والرجل يلبس لبسة المرأة»
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کی طرح کا لباس پہنے اور اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے۔“ [حاكم 194/4]
حاکم نے فرمایا یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ عورت اگر اپنے ٹخنے ننگے رکھے تو مرد سے مشابہت ہے اور مرد اپنے ٹخنے ڈھانک کر رکھے تو عورت سے مشابہت ہے۔
تیسری وجہ:
یہ ہے کہ چادر لٹکانے والے کی چادر کے ساتھ کوئی نہ کوئی نجاست لگنے کا اندیشہ رہتا ہے جب کہ اللہ تعلق کا حکم ہے «وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ» [74-المدثر:4] ”اپنے کپڑے پاک رکھ“ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چادر لٹکانے سے منع فرماتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی۔
صحیح بخاری میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مفصل واقعہ مذکور ہے عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ جب امیر المؤمنین کو پیٹ میں خنجر مارا گیا تو انہیں اٹھا کر گھر لایا گیا ہم بھی ساتھ گئے نبیذ بنائی گئی انہوں نے پی تو پیٹ سے نکل گئی پھر دودھ لایا گیا آپ نے پیا تو زخم سے نکل گیا۔ لوگوں کو یقین ہو گیا۔ کہ آپ فوت ہو جائیں گے۔ اب ہم ان کے پاس داخل ہوئے اور لوگ بھی آنے لگے اور ان کی تعریف کرنے لگے ایک نوجوان آیا اس نے کہا: امیر المؤمنین اللہ کی طرف سے خوش خبری کے ساتھ خوش ہو جائیے۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اسلام میں پیش قدی کی جو نعمت حاصل ہوئی آپ کو معلوم ہی ہے، پھر آپ حاکم بنے تو عدل کیا پھر شہادت نصیب ہوئی۔ فرمانے لگے میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ برابر برابر رہ جائے نہ مجھ پر (بوجھ) ہو نہ میرے لئے (کچھ) ہو۔ جب وہ واپس جانے لگا تو اس کی چادر زمین پر لگ رہی تھی فرمایا اس نوجوان کو میرے پاس واپس لاؤ فرمایا:
«يا ابن أخي إرفع ثوبك فانه انقي لثوبك واتقي لربك»
”بھتیجے اپنا کپڑا اوپر اٹھا لو کیونکہ یہ تمہارے کپڑے کو زیادہ صاف رکھنے کا باعث ہے اور تمہارے پروردگار سے زیادہ ڈرنے کا باعث ہے۔“ [بخاري 3700]
یہاں ان بھائیوں کو غور کرنا چاہئیے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کو معمولی خیال کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اتنی تکلیف کی حالت میں بھی کپڑا لٹکانے سے منع فرمانے کو ضروری سمجھا ہے۔
➑ زیر بحث حدیث میں مذکور لفظ «من جر ثوبه إلخ» سے صاف ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چادر لٹکانے سے ہی منع نہیں فرمایا بلکہ چادر شلوار قمیص کوئی بھی کپڑا ہو اسے لٹکانا منع ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 52
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 417
´مخلوق کے لئے تکبر کرنا حرام ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر ثوبه بطرا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ قیامت کے دن اس شخص کو (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا جو اپنا کپڑا تکبر سے گھسیٹ کے چلتا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 417]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5783، 5791، ومسلم 42/2085، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مخلوق کے لئے تکبر کرنا حرام ہے۔
➋ تکبر سے کپڑا گھسیٹ کر چلنا حرام ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 165
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5330
´ٹخنے سے نیچے تہبند لٹکانے کی سنگینی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (ٹخنے سے نیچے) اپنا کپڑا تکبر سے لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5330]
اردو حاشہ:
مذکورہ احادیث میں تکبر کی قید اتفاقی ہے کیونکہ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ لٹکانا از خود تکبر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5330
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5330
´ٹخنے سے نیچے تہبند لٹکانے کی سنگینی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے (ٹخنے سے نیچے) اپنا کپڑا تکبر سے لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5330]
اردو حاشہ:
مذکورہ احادیث میں تکبر کی قید اتفاقی ہے کیونکہ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ لٹکانا از خود تکبر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5330
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4085
´تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا“ یہ سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4085]
فوائد ومسائل:
1: بیٹھے بیٹھے یا کام کاج میں تہ بند یا شلوار وغیر ہ کا ڈھیلا ہو جانا اور ٹخنوں سے نیچے چلے جانا اس تکبر میں شمار نہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا۔
2: صحابہ کرام تعلیمات نبویہ کی روشنی میں انتہائی حساس تھے کہ کسی بھی وقت ان سے کوئی مخالفت نہ ہونے پائے اسی وجہ سے حٖت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے وضاحت چاہی تھی، اس سے انہیں اور دیگر مسلمانوں کے لئے راحت ہو گئی اور شدت نہ رہی، مگر آخری جملے کو اپنے لئے دلیل سمجھ لینا کسی طرح جائز نہیں، جیسا کہ اوپر وضاحت گزری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4085
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3569
´فخر و غرور سے ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے کپڑے فخر و غرور سے گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3569]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کپڑا گھسیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ کپڑا اتنا لمبا ہو کہ زمیں پر گھسیٹا ہو یا زمین سے چھوتا ہو۔
(2)
تہبند، شلوار، پتلون، پاجامہ، عربی قمیض جو پاؤں تک ہوتی ہے ان سب میں مرد کے لئے جائز حد یہ ہے کہ کپڑا ٹخنوں سے اوپر رہے۔
اور افضل یہ ہے کہ آدھی پنڈلی تک رہے۔
(3)
جائز حد سے نیچے کپڑا لٹکانا کبیرا گناہ ہے۔
(4)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کپڑا تکبر کی نیت سے نہیں لٹکاتے ان کا یہ عذر درست نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ﷺہے:
”تہبند لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں۔“ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ماجاء في اسبال الإزار، حديث: 4084)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3569
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1730
´تہ بند گھسیٹنے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جس نے تکبر سے اپنا تہ بند گھیسٹا“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1730]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
گویا تکبر کیے بغیر غیر ارادی طورپر تہ بند کا نیچے لٹک جانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
لیکن ارادۃ وقصداً نیچے رکھنا اور حدیث میں جو سزا بیان ہوئی ہے اسے معمولی جاننا یہ بڑا جرم ہے،
کیوں کہ کپڑا گھسیٹ کرچلنا یہ تکبر کی ایک علامت ہے،
جو لباس کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1730
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1731
´عورتوں کے دامن لٹکانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا“، ام سلمہ نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکا لیں“، انہوں نے کہا: تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکائیں ۱؎ اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔“ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1731]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ کپڑا لٹکانے کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حکم ہے،
مردوں کے لیے آدھی پنڈلی تک لٹکانا زیادہ بہتر ہے،
تاہم ٹخنوں تک رکھنے کی اجازت ہے،
لیکن ٹخنوں کا کھلا رکھنا بے حد ضروری ہے،
اس کے برعکس عورتیں نہ صرف ٹخنے بلکہ پاؤں تک چھپائیں گی،
خاص طور پر جب وہ باہر نکلیں تو اس کا خیال رکھیں کہ پاؤں پر کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1731
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:651
651-مسلم بن یناق بیان کرتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عبداللہ بن خالد کے گھر کے دروازے کے پاس موجود تھا وہاں سے ایک نوجوان گزرا جس نے اپنے تہبند کو لٹکایا ہوا تھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: تم اپنے تہبند کو اوپر کرلو، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سناہے: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرتا جو کپڑے کو تکبر کے طور پر لٹکا تا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:651]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرد حضرات کا اپنے ٹخنوں کو نگنا رکھنا فرض ہے، ورنہ عذاب ملے گا۔ بعض لوگوں نے فضول تقسیم کر رکھی ہے کہ مسجد میں نماز پڑھتے وقت ٹخنے ننگے رکھنے چاہئیں، باہر ضروری نہیں ہے، یہ بات بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ احادیث میں موجود ہے کہ خوشی غمی مسجد ہو یا باہر، ہر حالت میں مرد حضرات اپنے ٹخنے ننگے رکھیں۔ اور بعض نے یہ فلسفہ بیان کیا ہے کہ یہ تب منع ہے جب تکبر کی وجہ سے ہو، حالانکہ بے شمار احادیث میں مردوں کے اپنے ٹخنوں کو ڈھانپنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اور ان احادیث کو نہ ماننا تکبر ہے، اور تکبر کی تعریف بھی یہی ہے کہ ”حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا“ تکبر کرنا کبیرہ گناہ ہے، جس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 651
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5453
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان تکبر اور گھمنڈ سے اپنا کپڑا گھسیٹتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر نظر رحمت نہیں ڈالتا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5453]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
خيلاء:
خود پسندی،
انسان کا اپنے آپ کو کچھ سمجھنا اور اپنی کسی موہوم خوبی پر اترانا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹخنوں سے نیچے تہبند شلوار،
پاجامہ،
قمیص وغیرہ لٹکانا جبکہ تکبر،
گھمنڈ اور خود پسندی کے لیے ہو،
حرام ہے،
لیکن اگر بلا تکبر و غرور لٹکاتا ہے،
تو وہ اسلامی آداب کے منافی ہے،
اس لیے بعض روایات میں اس کو بلا قید ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے،
جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا،
وہ جہنم میں ہو گا۔
“ تکبر یا خود پسندی ایک مخفی امر ہے اور چادر لٹکانا اس کا فتنہ اور محل ہے،
اس لیے چادر لٹکانا،
تکبر اور خود پسندی کے قائم مقام ہو گا،
جیسا کہ سفر کی علت مشقت ہے،
لیکن یہ ایک پوشیدہ چیز ہے،
اس لیے سفر کو بلا قید قصر اور افطار کا سبب قرار دیا جاتا ہے،
اس لیے اگر کوئی جان بوجھ کر چادر لٹکاتا ہے اور کہتا ہے،
میں تکبر کے لیے ایسے نہیں کرتا تو اس کی بات قابل قبول نہیں ہو گی،
ہاں اگر غیر شعوری طور پر اتفاقا ایسے ہو جائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ہے،
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے،
”إياك وَجَر الإزار،
فإن جَر الإزار من المخيلة“ ”چادر گھسیٹنے سے بچو،
کیونکہ چادر گھسیٹنا خود پسندی کی بات ہے۔
“
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5453
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5791
5791. حضرت شعبہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں محارب بن دثار سے ملا جبکہ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اس جگہ جا رہے تھے جہاں فیصلے کرتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے فخر و غرور سے کپڑا گھسیٹا، اللہ تعالٰی اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔“ (شعبہ نے کہا کہ) میں نے محارب سے کہا: کیا ابن عمر ؓ نے) تہبند کا ذکر کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے تہبند یا قمیض کی تخصیص نہیں کی تھی محارب کے ساتھ اس حدیث کو جبلہ بن سحیم، زید بن اسلم اور زید بن عبداللہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہےلیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے ایسی ہی حدیث ذکر کی ہے نافع کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ، عمر بن محمد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5791]
حدیث حاشیہ:
جبلہ بن سحیم کی روایت کو امام نسائی نے اور زید بن اسلم کی روایت کو امام مسلم نے وصل کیا۔
موسیٰ کی روایت خود اسی کتاب میں شروع کتاب اللباس میں اور عمر بن محمد کی صحیح مسلم میں اور قدامہ کی صحیح ابو عوانہ میں موصول ہے۔
تہمد ہو یا قمیص جو بھی ازراہ تکبر لٹکا کر چلے گا اس کو بالضرور یہ سزا ملے گی صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5791
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3665
3665. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” جو شخص تکبر کی نیت سے اپنا کپڑا نیچے لٹکاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ “ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ گویاہوئے: میرے کپڑے کا ایک گوشہ لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اس کا خوب اہتمام کروں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”تم ایسا بطور تکبر نہیں کرتے ہو۔“ راوی حدیث موسیٰ نے سالم بن عبداللہ سے کہا: کہا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے تہ بند لٹکانے کا ذکر کیا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ میں نے انھیں صرف کپڑے کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3665]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ '' إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ'' اگر کوئی اپنی ازار ٹخنے سے اونچی بھی رکھے اور مغرور ہوتو اس کی تباہی یقینی ہے۔
اگر بلا قصد اور بلانیت غرور لٹک جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہ ہوگا۔
یہ ہر کپڑے کو شامل ہے۔
ازار ہویا پاجامہ یا کرتہ کی آستین بہت بڑی بڑی رکھنا، اگر غرور کی راہ سے ایسا کرے تو سخت گناہ اور حرام ہے۔
آج کے دور میں ازراہ کبر وغرور کو ٹ پتلون اس طرح پہننے والے اسی وعید میں داخل ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3665
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5783
5783. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نطر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5783]
حدیث حاشیہ:
لباس کا اسراف یہ ہے کہ بے فائدہ کپڑا خراب کرے ایک ایک تھان کے عمامے باندھے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کپڑا لٹکانے میں تکبر اور غرور کو بڑا دخل ہے یہ بہت ہی بری عادت ہے تکبر اور غرور کے ساتھ کتنی ہی نیکی ہو لیکن آدمی نجات نہیں پا سکے گا اور عاجزی اور فروتنی کے ساتھ کتنے بھی گناہ ہوں لیکن مغفرت کی امید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5783
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3665
3665. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” جو شخص تکبر کی نیت سے اپنا کپڑا نیچے لٹکاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ “ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ گویاہوئے: میرے کپڑے کا ایک گوشہ لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اس کا خوب اہتمام کروں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”تم ایسا بطور تکبر نہیں کرتے ہو۔“ راوی حدیث موسیٰ نے سالم بن عبداللہ سے کہا: کہا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے تہ بند لٹکانے کا ذکر کیا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ میں نے انھیں صرف کپڑے کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3665]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ راوی حدیث محارب سے سوال ہوا کہ آپ نے ازار کا ذکر کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ چادر یا قمیص کو خاص نہیں بلکہ عام کپڑے کا ذکر کیا تھا۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5791)
البتہ احضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ازار کا ذکر کیا ہے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5788)
2۔
حدیث میں ایک کونے سے مراد پچھلی جانب ہے کیونکہ جب سرین موٹے ہوں تو چادر کا پچھلا کنارہ رک جاتا ہے اور جب سرین ہلکے پھلکے ہوں تو چادر کو جہاں انسان باندھنا اور روکنا چاہتا ہے وہاں چادر رک نہیں سکتی بلکہ اس جگہ سے نیچے ڈھلک جاتی ہے۔
چونکہ ابو بکر ؓ لاغر و نحیف جسم والے تھے اس بنا پر کمر میں کچھ جھکاؤں بھی تھا کوشش کے باجود بعض اوقات آپ کی چادر ٹخنوں سے نیچے ہوجاتی تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مستثنیٰ قراردیا ہے۔
اس سے چادر کی اگلی جانب بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ پیٹ بڑھا ہوا ہو تو چادر کا اپنی جگہ پر رکنا ممکن نہیں رہتا۔
بعض روایات میں آپ کے متعلق ہے کہ آپ کا پیٹ بڑھا ہوا تھا لیکن یہ خلاف معروف ہے پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔
3۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق گواہی دی ہے کہ وہ ایسا فعل نہیں کرتے جو شرعاً مکروہ ہو، ویسے حالات میں انسان وعید شدید کی زد میں نہیں آتا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3665
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5783
5783. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نطر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5783]
حدیث حاشیہ:
(1)
کپڑا گھسیٹ کر چلنا انتہائی معیوب ہے۔
اس میں چادر، قمیص، شلوار، جبہ، کوٹ اور پگڑی وغیرہ شامل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”حد سے زیادہ کپڑا لٹکانا تہ بند، قمیص اور پگڑی تمام میں ممنوع ہے۔
“ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4094)
یہ اسراف ہے اور تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا:
”ٹخنوں سے نیچے چادر لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔
“ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4084)
البتہ عورتوں کو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی اجازت ہے۔
(2)
گویا اس انداز میں نسوانیت کا پہلو بھی ہے جو مردوں کو زیب نہیں دیتا۔
مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کریں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند اور شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔
بہرحال مسلمانوں کو اپنے لباس میں اسراف اور تکبر سے بچنا چاہیے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5783
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5784
5784. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹ کر چلے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے تہبند کا ایک کنارہ ڈھیلا ہو کر لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اس کی نگہداشت کرتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو تکبر وغرور سے ایسا کرتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5784]
حدیث حاشیہ:
(1)
کپڑا ٹخنوں کے نیچے کرنا قابل مذمت ہے، خواہ عادت کے طور پر ہو یا تکبر کی بنا پر، حدیث میں دونوں کی الگ الگ سزا بیان ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے اور جس نے تکبر کرتے ہوئے اپنا تہ بند گھسیٹا اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔
“ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4093) (2)
اگر کسی کو کوئی عذر درپیش ہے کہ اس کی توند بڑی ہو یا اس کی کمر کبڑی ہو اور کوشش کے باوجود بعض اوقات چادر ڈھلک کر ٹخنوں سے نیچے ہو جاتی ہو جیسا کہ حدیث بالا میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان ہوا ہے تو ایسی حالت میں اگر کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو جائے تو قابل مؤاخذہ نہیں، البتہ اسے عادت کے طور پر اختیار کرنا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔
(3)
واضح رہے کہ وہ کپڑا جو آگ میں ہو گا وہ اپنے پہننے والے کو بھی ساتھ گھسیٹ لے گا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5784
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5791
5791. حضرت شعبہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں محارب بن دثار سے ملا جبکہ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اس جگہ جا رہے تھے جہاں فیصلے کرتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے فخر و غرور سے کپڑا گھسیٹا، اللہ تعالٰی اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔“ (شعبہ نے کہا کہ) میں نے محارب سے کہا: کیا ابن عمر ؓ نے) تہبند کا ذکر کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے تہبند یا قمیض کی تخصیص نہیں کی تھی محارب کے ساتھ اس حدیث کو جبلہ بن سحیم، زید بن اسلم اور زید بن عبداللہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہےلیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے ایسی ہی حدیث ذکر کی ہے نافع کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ، عمر بن محمد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5791]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سفیان بن سہل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
”اے سفیان! کپڑا جائز حد سے زیادہ نہ لٹکاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس طرح کپڑا لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
“ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3574)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا:
”ایک بالشت لٹکا لیا کریں۔
“ انہوں نے کہا:
اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے۔
آپ نے فرمایا:
”ایسی صورت میں ایک ہاتھ لٹکا لیا کریں، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔
“ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1731) (2)
اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز کپڑا اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی چلتی ہیں، خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔
مغربی تہذیب کو اپناتے ہوئے ہماری عورتوں میں یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ دلہنیں شادی کے موقع پر کئی گز لمبا غرارہ پہنتی ہیں جو پیچھے گھسٹتا رہتا ہے، پھر وہ لہنگا اتنا لمبا ہوتا ہے کہ اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے اور وہ بھی اس کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔
نمود و نمائش کی ماری ہوئی یہ عورتیں بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ رحمت سے محروم ہوں گی۔
عورت، مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے رکھنے کی پابند نہیں ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں چھپائے رکھے مگر ایک ہاتھ سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے۔
ہمارے رجحان کے مطابق بہتر ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے، ایسا کرنے سے اگر پاؤں ننگے ہوں تو دو بالشت لٹکا لے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5791