عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کو زیورات اور ریشم سے منع فرماتے تھے اور فرماتے: ”اگر تم لوگ جنت کے زیورات اور اس کا ریشم چاہتے ہو تو اسے دنیا میں نہ پہنو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس باب میں مذکور بعض احادیث میں عورتوں کے لیے بھی سونے کے استعمال کو حرام بتایا گیا ہے، مؤلف نیز جمہور أئمہ عورتوں کے لیے سونے کے مطلق استعمال کے جواز کے قائل ہیں، اس لیے مؤلف نے ان احادیث کی گویا ایک طرح سے تاویل کرتے ہوئے یہ باب باندھا ہے، یعنی: ان احادیث میں جو عورتوں کے لیے سونے کے زیورات کو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ اس صورت میں ہے جب وہ ان کو پہن کر بطور فخر و مباہات کی نمائش کرتی پھریں، ورنہ ہر طرح کا سونے کا زیور عورتوں کے لیے حلال ہے، بعض علماء ان احادیث کو اس حدیث سے منسوخ مانتے ہیں، ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا اور ریشم کو مردوں کے لیے حرام کر دیا گیا ہے، اور عورتوں کے حلال کر دیا گیا ہے“، اس حدیث میں کوئی قید نہیں کہ سونے کا زیور حلقہ دار ہو یا ٹکڑے والا، علامہ البانی نے دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق کی راہ یہ نکالی ہے (جس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے) کہ عورتوں کے لیے حلقہ دار سونے کا زیور (جیسے کنگن، بالی اور انگوٹھی وغیرہ) حرام ہے، ہاں ٹکڑے ٹکڑے والا زیور حلال ہے جیسے بٹن، ٹپ، اور ایسا ہار جس کا بعض حصہ دھاگہ ہو، وغیرہ وغیرہ، احتیاط علامہ البانی کے قول ہی میں ہے۔ (ملاحظہ ہو: آداب الزفاف للألبانی)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5139
اردو حاشہ: (1) اہل بیت کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے۔ ان کے لیے بعض ایسی چیزیں بھی نامناسب قرار دی گئیں جو عام مسلمانوں کے لیے جائز تھیں۔ ہر بیوی اپنے خاوند سے نقفے وغیرہ کا مطالبہ کرسکتی ہے مگر ازواج مطہرات کو ہر قسم کے مطالبے سے روک دیا گیا۔ ان کو غلطی پر دگنی سزا کی وعید سنائی گئی جب کہ نیکی پر ان کا اجر بھی دوہرا ہے ارشاد باری تعالی ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا﴾(سورة الأحزاب 31،30:33)”اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اور اللہ کے لیے یہ نہایت آسان ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اور نیک عمل کرے تو ہم اسے اس کا اجر دوگنا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے عزت کا رزق تیار کر رکھا ہے۔“ مذکورہ حدیث بھی اہل بیت کے ساتھ خاص ہے کہ ان کو زیورات اور ریشم سے روک دیا گیا جب کہ دوسری عورتوں کے لیےآپ نے صراحتاً فرمایا: (أُحِلَّ الذَّهَبُ والحريرُ لإناثِ أمَّتي، وحُرِّمَ على ذُكورِها)”ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔“(جامع الترمذي، اللباس، حدیث:1720، وسنن النسائي، الزینة، باب تحریم الذهب علی الرجال، حدیث:5151) اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ پہننا جائز ہے، نمائش مکروہ ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ کی بابت قوی احتمال یہی ہے کہ وہ یہ امہات المومنین ازواج رسول کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے، تاہم مسلمان خواتین کے شایان شان اور ان کے لائق بھی یہی ہے کہ وہ جنت کے زیورات سے آراستہ ہونے اور جنت کے ریشم سے شاد کام ہونے کا خاطر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی اقتدا کرتے ہوئے دنیا میں سونے اور ریشم سے مزین ہونے سے حتی الامکان پرہیز کریں۔ ریشم اور سونا اگرچہ مسلمان خواتین کے لیے مباح اور حلال ہے، تاہم عزیمت اور استحباب اس میں ہے کہ ممکن حد تک دنیوی بناؤ سنگھار اور زیب و زینت سے محتاط رہا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5139