(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا شريك، عن منصور، عن عطاء، ومجاهد , عن ايمن ابن ام ايمن، يرفعه، قال:" لا تقطع اليد إلا في ثمن المجن، وثمنه يومئذ دينار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَطَاءٍ، وَمُجَاهِدٍ , عَنْ أَيْمَنَ ابْنِ أُمِّ أَيْمَنَ، يَرْفَعُهُ، قَالَ:" لَا تُقْطَعُ الْيَدُ إِلَّا فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ، وَثَمَنُهُ يَوْمَئِذٍ دِينَارٌ".
ایمن بن ام ایمن سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاتھ ڈھال کی قیمت میں کاٹا جائے“ اور اس وقت اس کی قیمت ایک دینار تھی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4946 (منکر)»
قال الشيخ الألباني: منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، لإرساله قال ابن حبان فى الثقات (4/ 47): ’’أيمن بن عبيد الحبشي.....ومن زعم أن له صحبة فقد وهم،حديثه فى القطع مرسل‘‘. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 359
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4951
اردو حاشہ: اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے راوی حضرت ایمن صحابی ہیں۔ اور حضرت اسامہ ؓ کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔ لیکن یہ راوی کی غلطی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ایمن حبشی مکی ہیں جو تابعی تھے۔ کہا گیا ہے کہ انہیں حضرت زبیر یا ابن زبیر نے آزاد کیا تھا، اس لیے یہ روایت تابعی کی مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو گی، نیز یہ صحیح روایات کے معارض ہونے کی وجہ سے بھی نا قابل حجت ہے، اس لیے محقق کتاب کا اسے صحیح کہنا درست نہیں۔ بالفرض اگر یہ ایمن واقعتا صحابی ایمن ہی مراد ہوں تو پھر بھی یہ روایت منقطع ہے کیونکہ حضرت عطاء اور مجاہد کی حضرت ایمن جو کہ صحابی ہیں سے ملاقات ہی نہیں۔ یہ دونوں بعد کے دور کے ہیں اور اس روایت (دینار یا دس درہم) کو بیان کرنے والے یہی دو بزرگ ہیں لہذا اگر ایمن تابعی ہیں تب بھی اور اگر صحابی ہیں تب بھی دونوں صورتوں میں سند منقطع ہے اور غیر معتبر، خصوصا جب کہ اس سے کم قیمت تین درہم یا چوتھائی دینار پر ہاتھ کاٹنا صحابہ کرام ؓ سے بلاشبہ ثابت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4951