سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of Salah
19. بَابُ : فَضْلِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ
19. باب: نماز عشاء کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The Virtue Of Salat Al-'Isha'
حدیث نمبر: 483
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا نصر بن علي بن نصر، عن عبد الاعلى، قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت:" اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعشاء حتى ناداه عمر رضي الله عنه نام النساء والصبيان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنه ليس احد يصلي هذه الصلاة غيركم". ولم يكن يومئذ احد يصلي غير اهل المدينة.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت:" أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ غَيْرَكُمْ". وَلَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يُصَلِّي غَيْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو مؤخر کیا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کو (اس وقت) پڑھ رہا ہو، ان دنوں اہل مدینہ کے سوا کوئی اور نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 161 (862) تعلیقاً، (تحفة الأشراف: 16642)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 39 (638)، مسند احمد 6/34، 199، 215، 272، سنن الدارمی/الصلاة 19 (1249) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري862عائشة بنت عبد اللهليس أحد من أهل الأرض يصلي هذه الصلاة غيركم ولم يكن أحد يومئذ يصلي غير أهل المدينة
   صحيح البخاري569عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم قال ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول
   صحيح البخاري864عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون العتمة فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول
   صحيح مسلم1443عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم وذلك قبل أن يفشو الإسلام في الناس
   سنن النسائى الصغرى483عائشة بنت عبد اللهليس أحد يصلي هذه الصلاة غيركم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 483 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 483  
483 ۔ اردو حاشیہ:
➊ضرورت پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے پکارنا جائز تھا۔ آپ کی موجودگی میں بلاضرورت اونچی آواز سے بولنا گناہ تھا، گستاخی تھی اور موجب حرمان تھا، پھر یہ واقعہ سورۂ حجرات کے نزول سے پہلے اسلام کے ابتدائی ایام کا ہے جبکہ اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت اور اس پر عمل کی بربادی کی وعید سورۂ حجرات میں آئی ہے۔
عورتیں اور بچے سوگئے۔ یعنی وہ عورتیں جو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آئی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بجے بھی تھے۔ یا گھروں میں عورتیں اور بچے سوگئے۔ دروازہ کھلوانا مشکل ہو گا۔ لیکن پہلا مفہوم ہی درست ہے۔
تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔ کیونکہ عیسائی و یہودی تو عشاء کی نماز پڑھتے ہی نہیں، صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس وقت اسلام مدینے سے باہر نہیں پھیلا تھا یا پھر مکے میں چند مجبورومقہور مسلمان تھے جن کو علانیہ نمازباجماعت پڑھنے کی ہمت ہی نہ تھی، چھپ چھپا کر پڑھتے تھے۔ اس جملے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اتنی تاخیر کے ساتھ مسجد نبوی کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مدینہ منورہ کی دیگر مساجد میں لوگ جلدی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے۔ اس صورت میں تم سے مراد مسجد نبوی کے نمازی ہوں گے، پہلی صورت میں عام مسلمان مراد ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
➍اس حدیث سے بظاہر امام صاحب کا استدلال واضح نہیں ہے لیکن آپ کا یہ فرمانا: تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا اس امت کی خصوصیت واضح کرتا ہے، اس لیے اس نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز کے لیے منتظر رہنا اس کے اہتمام میں شامل ہے، لہٰذا یہ عمل اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 483   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 569  
´اگر نیند کا غلبہ ہو جائے تو عشاء سے پہلے بھی سونا درست ہے`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ الصَّلَاةَ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ، فَقَالَ: مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ غَيْرُكُمْ، قَالَ: وَلَا يُصَلَّى يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِالْمَدِينَةِ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں دیر فرمائی۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا، نماز! عورتیں اور بچے سب سو گئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ راوی نے کہا، اس وقت یہ نماز (باجماعت) مدینہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی۔ صحابہ اس نماز کو شام کی سرخی کے غائب ہونے کے بعد رات کے پہلے تہائی حصہ تک (کسی وقت بھی) پڑھتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ لِمَنْ غُلِبَ:: 569]
تشریح:
حضرت امیرالدنیا فی الحدیث یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ عشاء سے پہلے سونا یا اس کے بعد بات چیت کرنا اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سونے میں عشاء کی نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہے اور دیر تک بات چیت کرنے میں صبح کی نماز فوت ہونے کا خطرہ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ان خطرات سے بچ سکے تو اس کے لیے عشاء سے پہلے سونا بھی جائز اور بعد میں بات چیت بھی جائز جیسا کہ روایات واردہ سے ظاہر ہے۔ اور حدیث میں یہ جو فرمایا کہ تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظار نہیں کرتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں کسی بھی امت پر اس نماز کو فرض نہیں کیا گیا، یہ نماز اہل اسلام ہی کے لیے مقرر کی گئی یا یہ مطلب ہے کہ مدینہ کی دوسری مساجد میں سب لوگ اوّل وقت ہی پڑھ کر سو گئے ہیں۔ صرف تم ہی لوگ ہو جو کہ ابھی تک اس کا انتظار کر رہے ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 569   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 864  
864. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند آپ کو پکارا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس کے بعد نبى ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: اہل زمین میں سے تمہارے علاوہ کوئی بھی اس نماز کا منتظر نہیں ہے۔ ان دنوں مدینہ کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اور لوگ سرخی غائب ہونے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:864]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر ؓ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ ﷺ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔
ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سو گئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔
اس کے بعد جو حدیث امام بخاری ؒ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔
یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔
اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔
بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے اور ابویوسف ؒ نے کہا بڑھیا ہر ایک نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہے اور جوان کا آنا مکروہ ہے۔
قسطلانی۔
(مولانا وحید الزماں مرحوم)
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام ؒ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 864   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 862  
862. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک رات نماز عشاء میں دیر کر دی یہاں تک حضرت عمر ؓ نے آپ کو بآواز بلند کہا: عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ (حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ) پھر رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اس وقت نماز پڑھ رہا ہو۔ ان دنوں اہل مدینہ کے علاوہ اور کوئی یہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:862]
حدیث حاشیہ:
اس لیے کہ اسلام صرف مدینہ میں محدود تھا، خاص طور پر نماز باجماعت کا سلسلہ مدینہ ہی میں تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالاکہ اس وقت عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے بچے بھی آتے رہتے ہوں گے، جبھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔
پس جماعت میں عورتوں کا مع بچوں کے شریک ہونا بھی ثابت ہوا والظاھر من کلام عمر رضی اللہ عنہ أنه شاھد النساء اللاتی حضرن في المسجد قد نمن وصبیانھن معھن (حاشیہ بخاری)
یعنی ظاہر کلام عمر سے یہی ہے کہ انہوں نے ان عورتوں کا مشاہدہ کیا جو مسجد میں اپنے بچوں سمیت نماز عشاءکے لیے آئی تھیں اور وہ سو گئیں جب کہ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 862   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:569  
569. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، آپ نے فرمایا: ایک رات رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے آپ کو بآواز بلند کہا: (یا رسول اللہ!) نماز (پڑھا دیں)، عورتیں اور بچے سو گئے ہیں، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا: تمہارے علاوہ اہل زمین میں سے کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کر رہا۔ راوی کہتا ہے کہ ان دنوں مدینے کے علاوہ کسی اور جگہ نماز نہیں ہوتی تھی، نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عشاء کی نماز شفق غائب ہونے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:569]
حدیث حاشیہ:
پہلے باب میں عشاء سے قبل سونے کے متعلق کراہت کا بیان تھا۔
اس باب میں ان حالات کی طرف اشارہ مقصود ہے جن مین سونے کی اجازت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیند کے ہاتھوں مغلوب ہوجائے، یعنی اس کے اختیار کا کوئی دخل نہ ہوتو وہ معذور ہے۔
اس کے علاوہ درج ذیل صورتوں میں بھی عشاء سے قبل سونے کی اجازت ہے:
٭ایسی جگہ سوجائے کہ جہاں اسے یقینا اٹھا دیاجائے گا، مثلاً:
مسجد میں نماز کے انتظار میں سونا۔
٭سونے سے بیداری کا کوئی انتظام کردیاجائے، مثلاً:
کسی کو مقرر کردینا کہ وہ نماز کے وقت اٹھا دے گا یا الارم لگاکرسوجائے۔
٭جسے اپنی عادت پر پورا اعتماد ہوکہ ضرورت کے وقت آنکھ کھل جائے گی۔
مقصد یہ ہے کہ اگر نماز باجماعت فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 569   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.