نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، تحفة الأشراف: (11717)، وحدیث عراک بن مالک عن عبداللہ بن عمر قد تفرد بہ النسائی (أیضاً)، تحفة الأشراف: (7320)، وقد أخرجہ عن طریق مالک عن نافع عن عبداللہ بن عمر: صحیح البخاری/المناقب 25 (3602)، مواقیت 14 (552)، صحیح مسلم/المساجد 35 (626)، سنن ابی داود/الصلاة 5 (414)، سنن الترمذی/الصلاة 16 (175)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 6 (685)، طا/وقوت الصلاة 5 (21)، (تحفة الأشراف: 8345)، مسند احمد 2/8، 13، 27، 48، 54، 64، 75، 76، 102، 134، 145، 148، سنن الدارمی/الصلاة 27 (1267) (صحیح) یزید نے (آنے والی روایت میں) جعفر کی مخالفت کی ہے 1؎۔ وضاحت 1؎: یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں ہے، سند میں اس طرح کہ جعفر کی روایت میں ہے کہ نوفل نے عراک سے بیان کی ہے اور یزید کی روایت میں ہے کہ عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ نوفل بن معاویہ نے کہا، دونوں میں فرق واضح ہے پہلی صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عراک نے نوفل بن معاویہ سے خود سنا ہے، اور دوسری صورت سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ میں واسطہ ہے، متن میں مخالفت اس طرح ہے کہ جعفر کی روایت میں ’’من فاتته صلاة العصر‘‘ کے الفاظ ہیں، اور یزید کے الفاظ اس طرح ہیں ’’من الصلاة صلاة من فاتته‘‘۔»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 479
479 ۔ اردو حاشیہ: ➊یزید بن ابی حبیب اور جعفر بن ربیعہ حضرت عراک کے شاگرد ہیں۔ دونوں نے سند میں بھی اختلاف کیا ہے اور متن میں بھی۔ سند کا اختلاف تو یہ ہے کہ یزید بن ابی حبیب کی روایت میں ہے حضرت عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت نوفل بن معاویہ یوں فرماتے تھے، گویا عراک نے خود حضرت نوفل سے نہیں سنا جب کہ جعفر بن ربیعہ کی روایت میں سماع اور تحدیث کی صراحت ہے۔ ممکن ہے پہلے عراک نے یہ روایت واسطے سے سنی ہو، پھر براہ راست سن لی۔ اور دونوں طرح بیان کر دیا۔ متن میں اختلاف یہ ہے کہ جعفر کی روایت میں نماز عصر کی صراحت ہے جب کہ یزید بن ابی حبیب کی روایت میں ”کسی ایک نماز“ کا ذکر ہے۔ ممکن ہے حضرت نوفل کی روایت میں عصر کی صراحت نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہو۔ پہلے حضرت عراک مبہم بیان کرتے ہوں گے، پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صراحت کے بعد انہوں نے نوفل کی روایت میں بھی نمازِعصر کی صراحت شروع کر دی ہو۔ واللہ اعلم۔ ➋حدیث: 475 میں حبطِ عمل کا ذکر ہے اور یہاں اہل و مال کے لوٹ لیے جانے کا۔ دراصل وہ روایت نماز ترک کر دینے کے بارے میں ہے کہ نہ ادا کی گئی ہو اور نہ قضا ہی پڑھی گئی ہو۔ اور یہ روایت سستی کی بنا پر نماز وقت سے رہ جانے کے بارے میں ہے جب کہ وقت کے بعد قضا پڑھ لی گئی ہو۔ اہل و مال کا لوٹا جانا بھی معمولی نقصان نہیں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 479