(مرفوع) اخبرني ابو بكر بن إسحاق، قال: حدثنا ابو الجواب، قال: حدثنا عمار، عن محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن الحكم، عن محمد بن مسلم، عن صفوان بن يعلى: ان اباه غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، فاستاجر اجيرا، فقاتل رجلا , فعض الرجل ذراعه , فلما اوجعه نترها فاندر ثنيته، فرفع ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يعمد احدكم فيعض اخاه كما يعض الفحل" فابطل ثنيته. (مرفوع) أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى: أَنَّ أَبَاهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَاسْتَأْجَرَ أَجِيرًا، فَقَاتَلَ رَجُلًا , فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَهُ , فَلَمَّا أَوْجَعَهُ نَتَرَهَا فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَعَضُّ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ" فَأَبْطَلَ ثَنِيَّتَهُ.
صفوان بن یعلیٰ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، انہوں نے ایک نوکر رکھ لیا تھا، اس کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا تو اس آدمی نے اس (نوکر) کے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، جب اسے تکلیف ہوئی تو اس نے اسے زور سے کھینچا، تو اس (آدمی) کا دانت نکل پڑا، یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی کو چبائے جیسے اونٹ چباتا ہے؟“ چنانچہ آپ نے دانت کی دیت نہیں دلوائی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4776
اردو حاشہ: (1) مذکورہ روایت مختلف سندوں سے مروی ہے۔ بعض طرق میں لڑنے والے دونوں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں۔ بعض میں دانت کاٹنے والے کی صراحت ہے اور بعض میں جسے کاٹا گیا اس کا ذکر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دو واقعات ہوں، ایک لڑائی کرنے والے حضرت یعلی اور دوسرا کوئی شخص ہو اور دوسرے میں حضرت یعلی کا نوکر اور دوسرا کوئی شخص ہو۔ لیکن راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اور تمام روایات میں تطبیق کی صورت یوں ہے کہ یہ لڑائی حضرت یعلی اور ان کے نوکر کے درمیان ہوئی۔ دانت کاٹنے والے حضرت یعلی خود تھے اور دانت بھی انھی کا ٹوٹا تھا۔ شاید اسی وجہ سے انھوں نے اپنا نام مخفی رکھا۔ حضرت عمران بن حصین نے حضرت یعلی کے نام کی صراحت کی ہے۔ (حدیث: 4764) اور جنھیں کاٹا گیا وہ ان کے نوکر تھے۔ اس طرح رجل من المسلمین، رجلا من بنی تمیم، عض الاخر اور عض الرجل سے مراد حضرت یعلی ہوں گے۔ (2) بعض روایات میں یعلی بن امیہ ہے اور بعض میں یعلی ابن منیہ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امیہ حضرت یعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے باپ کا نام ہے اور منیہ ماں کا اس لیے کبھی ان کی نسبت باپ کی طرف کی گئی اور کبھی ماں کی طرف، لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري شرح صحیح البخاري: 12/ 274، 275)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4776