سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے سامان کا زیادہ حقدار ہے جب کسی کے پاس پائے، اور بیچنے والا جس کے پاس چیز پائی گئی ہے وہ اپنے بیچنے والے کا پیچھا کرے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع80(3531)، (تحفة الأشراف: 4595)، مسند احمد (5/13، 18) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور متن پچھلے متن کا مخالف بھی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (3531) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 355
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4685
اردو حاشہ: عین، یعنی اصل مال سے مراد وہ مال ہے جو چوری ہوگیا یا کسی نے چھین لیا، پھر وہ کسی اور آدمی کے پاس مل گیا۔ اس حدیث کی رو سے اصل مالک اپنا مالک دوسرے شخص سے بلا معاوضہ لے لے گا۔ دوسرا شخص اپنی رقم کا مطالبہ بیچنے والے سے کرے گا نہ کہ اصل مالک سے کیونکہ وہ تو اس کا ذاتی مال ہے۔ (تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 4683)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4685
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3531
´جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس پائے تو کیا کرے؟` سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3531]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ کوئی غصب شدہ چوری شدہ یا گم شدہ مال اگر کسی کے پاس ملے۔ تو وہ اصل مالک کا حق ہے۔ یعنی خریدار تو وہ مالک اصل مالک کو دے دے۔ اور اپنا نقصان یعنی اس مال کی قیمت اس سے وصول کرے۔ جس سے اس نے خریدا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3531