(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، عن إسماعيل، قال: حدثنا العلاء، عن ابي كثير مولى محمد بن جحش، عن محمد بن جحش، قال: كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , فرفع راسه إلى السماء، ثم وضع راحته على جبهته، ثم قال:" سبحان الله ماذا نزل من التشديد" , فسكتنا وفزعنا فلما كان من الغد سالته: يا رسول الله ما هذا التشديد الذي نزل؟ فقال:" والذي نفسي بيده , لو ان رجلا قتل في سبيل الله، ثم احيي، ثم قتل، ثم احيي، ثم قتل وعليه دين ما دخل الجنة حتى يقضى عنه دينه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ مَوْلَى مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ وَضَعَ رَاحَتَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ قَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا نُزِّلَ مِنَ التَّشْدِيدِ" , فَسَكَتْنَا وَفَزِعْنَا فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ سَأَلْتُهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نُزِّلَ؟ فَقَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيِيَ، ثُمَّ قُتِلَ، ثُمَّ أُحْيِيَ، ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ".
محمد بن جحش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، پھر ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا، پھر فرمایا: ”سبحان اللہ! کتنی سختی نازل ہوئی ہے؟“ ہم لوگ خاموش رہے اور ڈر گئے، جب دوسرا دن ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی؟ آپ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایک شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہو گا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہو جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یا قرض خواہ قرض نہ ادا کرنے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دے، تو بھی وہ عفو و مغفرت کا مستحق ہو گا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4688
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد قرض کی بابت شریعت کی سخت ترین وعید بیان کرنا ہے، یعنی جو آدمی قرض لے اور پھر اسے ادا کیے بغیر مر جائے تو اس کے لیے آخرت کے مراحل انتہائی مشکل ہوں گے بلکہ اس کے لیے جنت کا داخلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے، لہٰذا قرض لینے سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر قرض لینا ناگزیر ہو تو پھر اس کی جلد از جلد واپسی اور ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ (2) شہید فوت ہوتے ہی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور جنت میں اڑتا پھرتا ہے، تاہم قرض رکاوٹ بن جاتا ہے حتیٰ کہ قرض ادا کر دیا جائے۔ یا قرض خواہ راضی ہو جائے۔ اپنے آپ راضی ہو جائے یا اللہ تعالیٰ اسے راضی فرما دے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4688