ابومنہال کہتے ہیں کہ میں نے بیع صرف کے بارے میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے معلوم کر لو، وہ مجھ سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں۔ چنانچہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: براء رضی اللہ عنہ سے معلوم کرو وہ مجھ سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں، تو ان دونوں نے کہا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے بدلے چاندی ادھار بیچنے سے روکا ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4581
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک صاحب علم کو فتویٰ دیتے وقت اپنے سے بڑے یا دیگر اصحاب العلم سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے، نیز ان سے مدد لے اور تعاون حاصل کرے تاکہ بعد ازاں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہو جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ پوچھنے کی تلقین فرمائی۔ اہل علم کی یہی شان ہوا کرتی ہے۔ (2)”وہ مجھ سے بہتر ہیں۔“ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کسر نفسی اور تواضع ہے کہ دوسرے کو اپنے سے بہتر اور بڑا عالم خیال کرتے تھے۔ کاش! آج علماء وفضلاء اور اہل علم میں یہ عظیم جذبہ پیدا ہو جائے اور خودنمائی وخود پسندی کی بیماری سے ”صحت یاب ہو جائیں۔“ آمین! اہل علم کو یہی رویہ اپنانا چاہیے، اس میں برکت اور احترام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4581
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2181
2181. حضرت ابو منہال سے روایت ہے انھوں نے حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے بیع صرف کے متعلق دریافت کیا تو ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کے متعلق کہا کہ یہ مجھ سے بہتر ہے۔ پھر دونوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کو چاندی کے عوض ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2181]
حدیث حاشیہ: اگر اسباب کی بیع اسباب کے ساتھ ہو تو اس کو مقایضہ کہتے ہیں۔ اگر اسباب کی نقد کے ساتھ ہو تو نقد کو ثمن اور اسباب کو عرض کہیں گے۔ اگر نقد کی نقد کے ساتھ ہو مگر ہم جنس ہو یعنی سونے کو سونے کے ساتھ بدلے یا چاندی کو چاندی کے ساتھ تو اس کو مراطلہ کہتے ہیں۔ اگر جنس کا اختلاف ہو جیسے چاندی سونے کے بدل یا بالعکس تو اس کو صرف کہتے ہیں۔ صرف میں کمی بیشی درست ہے مگر حلول یعنی ہاتھوں ہاتھ لین دین ضروری اورلازم ہے اور قبض میں دیر کرنی درست نہیں۔ اور مراطلہ میں تو برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ اگر ثمن اور عرض کی بیع ہو تو ثمن یا عرض کے لیے میعاد مقررکرنا درست ہے۔ اگر ثمن میں میعاد ہو تو وہ قرض ہے ا گر عرض میں میعاد ہو تو وہ سلم ہے یہ دونوں درست ہیں۔ اگر دونوں میں میعاد ہو تو وہ بيعِ الكَالِي بالكالِي ہے جو درست نہیں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2181
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2181
2181. حضرت ابو منہال سے روایت ہے انھوں نے حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے بیع صرف کے متعلق دریافت کیا تو ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کے متعلق کہا کہ یہ مجھ سے بہتر ہے۔ پھر دونوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کو چاندی کے عوض ادھار فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2181]
حدیث حاشیہ: (1) عام طور پر خریدوفروخت کرنسی کے ذریعے سے ہوتی ہے لیکن فقہاء کی اصطلاح میں خریدوفروخت کی اقسام درج ذیل ہیں: ٭ مقایضہ: غلہ، کپاس وغیرہ دے کر ضرورت کی دیگر اشیاء خریدنا۔ ابتدائی دور کے بعض دیہات میں آج کل بھی گندم وغیرہ دے کر دکان سے اشیاء خریدی جاتی ہیں۔ ٭ مراطلہ: ایک کرنسی کی اسی کرنسی کے بدلے خریدوفروخت کرنے کو مراطلہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تبادلے میں دونوں کی مقدار ایک جتنی ہو اور سودا بھی دست بدست ہو۔ ٭ صرف سونے کو چاندی یا ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے بدلے خریدوفروخت کرنے کو صرف کہتے ہیں۔ اس میں باہمی کمی بیشی تو جائز ہے مگر ادھار کی اجازت نہیں۔ ایک سو گرام سونے کے عوض کئی سوگرام چاندی یا ایک ریال کے بدلے کئی روپے خریدے جاسکتے ہیں لیکن ایک ملکی کرنسی کے نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے عوض کمی بیشی سے خریدنا جائز نہیں۔ ٭ نقدی دے کر اشیائے ضرورت خریدنا،اس کی نقد خریدوفروخت تو ہر وقت جاری رہتی ہے۔ اس میں ادھار بھی جائز ہے۔ اگر قیمت پہلے ادا کردی جائے اور چیز بعد میں لینا طے پائے تو اسے سلم کہتے ہیں اور ایسا کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اسی طرح چیز لے کر قیمت بعد میں ادا کرنا بھی جائز ہے لیکن قیمت اور جنس دونوں کو ادھار رکھنا جائز نہیں۔ اسے بیع سلم بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بہر حال ان تمام اقسام کا حکم یہ ہے کہ دست بدست تو سب جائز ہیں،البتہ ادھار لین دین میں کچھ تفصیل ہے۔ نقدی کا نقدی کے عوض ادھار جائز نہیں،البتہ سامان کا نقدی کے عوض ادھار جائز ہے۔ اگر نقدی وصول کرکے سامان بعد میں حوالے کرنا ہے تو بھی جائز ہے۔ اگر دونوں طرف سے ادھار ہے تو یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے چاندی کو سونے کے عوض ادھار خریدوفروخت کرنے کے متعلق عنوان قائم کیا تھا۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ اس میں کمی بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن خریدوفروخت کا ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2181