1. باب: نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Enjoining As-Salah And Mentioning The Differences Reported by The Narrators In The Chain Of The Hadith Of Anas Bin Malik (May Allah Be Pleased With Him), And The Different Wordings In It
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا مالك بن مغول، عن الزبير بن عدي، عن طلحة بن مصرف، عن مرة، عن عبد الله، قال:" لما اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة وإليها ينتهي ما عرج به من تحتها وإليها ينتهي ما اهبط به من فوقها حتى يقبض منها، قال: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال: فراش من ذهب، فاعطي ثلاثا: الصلوات الخمس وخواتيم سورة البقرة ويغفر لمن مات من امته لا يشرك بالله شيئا المقحمات". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال:" لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا عُرِجَ بِهِ مِنْ تَحْتِهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا أُهْبِطَ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا حَتَّى يُقْبَضَ مِنْهَا، قَالَ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأُعْطِيَ ثَلَاثًا: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَيُغْفَرُ لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِهِ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(معراج کی شب) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایا گیا تو جبرائیل علیہ السلام آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ۱؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ۲؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ۳؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ۴؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ «إذ يغشى السدرة ما يغشى»۵؎(جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں) آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ نمازیں، سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں ۶؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔
وضاحت: ۱؎: اس سے پہلے انس رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پر ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ۲؎: یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ۔ ۳؎: یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔ ۴؎: مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔ ۵؎: النجم: ۱۶۔ ۶؎: یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 76 (173)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النجم (3276)، (تحفة الأشراف 9548)، مسند احمد 1/387، 422) (صحیح)»
لما أسري برسول الله انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة وإليها ينتهي ما عرج به من تحتها وإليها ينتهي ما أهبط به من فوقها حتى يقبض منها قال إذ يغشى السدرة ما يغشى
أسري برسول الله انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة إليها ينتهي ما يعرج به من الأرض فيقبض منها وإليها ينتهي ما يهبط به من فوقها فيقبض منها قال إذ يغشى السدرة ما يغشى
انتهى إليها ما يعرج من الأرض وما ينزل من فوق قال فأعطاه الله عندها ثلاثا لم يعطهن نبيا كان قبله فرضت عليه الصلاة خمسا وأعطي خواتيم سورة البقرة وغفر لأمته المقحمات ما لم يشركوا بالله شيئا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 452
452 ۔ اردو حاشیہ: ➊ براق کا ذکر روایات معراج میں بیت المقدس تک ہی ملتا ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ بیت المقدس سے آگے آسمانوں کا سفر ایک سیڑھی نما چیز ”معراج“ کے ذریعے سے ہوا لیکن اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ واللہ اعلم۔ ➋ بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کے لیے حاضر ہونا اور آپ کا ان کی امامت کروانا آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ ظاہر تو یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام جسمانی طور پر حاضر تھے نہ کہ صرف روحانی طور پر جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کے جسم بھی اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔ [سنن ابی داود، الصلاة، حدیث: 1047] اگر انبیاء علیہم السلام صرف روحانی طور پر ہی لائے گئے ہوں تو بھی واقعہ کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ معاملہ برزخ کا ہے جو انسان کی رسائی سے باہر ہے۔ ➌عام احادیث میں سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہی ملتا ہے مگر صحیحین کی ایک روایت میں ایک اور مقام پر آپ کے چڑھنے کا ذکر ہے جہاں سے آپ کو قلموں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی۔ [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 349، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث: 163] لیکن اس مقام کا کوئی نام ذکر نہیں کیا گیا۔ ➍سورۃ البقرہ کی آخری آیات کا نزول بالاتفاق مدنی ہے اور واقعہ معراج مکی ہے۔ معراج میں سورۂ بقرہ کی آخری آیات دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات عطا کرنے کا وعدہ کر لیا گیا جب کہ نزول بعد میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ واللہ أعلم۔ ➎کبائر کی معافی کی دو صورتیں ہوں گی: جس کواللہ تعالیٰ چاہے گا پہلے مرحلے ہی میں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا کیونکہ بعض کے بلاتوبہ بھی کبائر معاف ہو جائیں گے، ورنہ جہنم میں سزا بھگت کر پھر معافی ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 452
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3276
´سورۃ النجم سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، (۲) سورۃ البقرہ کی «خواتیم»(آخری آیات) عطا کی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3276]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم: 16)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3276
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 431
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے ”کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اسراء کروایا گیا، تو آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، وہ چھٹے آسمان پر ہے، اس کے پاس جا کر وہ چیزیں جنھیں زمین سے اوپر لے جایا جاتا ہے، رک جاتی ہیں اور وہاں سے انھیں لے لیا جاتا ہے۔ اور اس کے پاس آ کر رک جاتی ہیں وہ چیزیں جنھیں اس کے اوپر سے نیچے لایا جاتا ہے، اور وہاں سے انھیں وصول کر لیا جاتا ہے۔ (اس کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جب ڈھانپ لیا، سدرہ کو جس نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:431]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ: سونے کے پتنگے، چراغ کی روشنی پر گرنے والے پروانے مراد ہیں۔ (2) الْمُقْحِمَاتُ: اقحام کا معنی ہوتا ہے، کسی کو بلا سوچے سمجھے داخل کرنا۔ "أَقْحَمَ فَرَسَهُ النَّهْرَ" ”اپنے گھوڑے کو جبراً نہر میں داخل کیا۔ “ الْمُقْحِمَاتُ: سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جو انسان کی تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔ فوائد ومسائل: (1) سدرۃ المنتہیٰ چھٹے آسمان سے شروع ہو کر ساتویں آسمان کے اوپر تک پھیلی ہوئی ہے، اس کی جڑیں چھٹے آسمان پر ہیں اور شاخیں ساتویں پر ہیں۔ (2) بعض لوگوں کے ایمان کی پختگی اور نیکیوں کی وجہ سے سب گناہ معاف ہو جائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا کرم واحسان ہے یا پھر بقدر جرم وگناہ عذاب کے بعد ان کے گناہ ختم ہو جائیں گے اور پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ نوٹ: ۔ مندرجہ ذیل تین حدیثیں ہندوستانی اور پاکستانی نسخوں میں اگلے باب کے تحت درج ہیں۔ اور ان کا تعلق بھی اگلے باب ہی سے ہے۔ لیکن بیروت نسخے میں مذکورہ بالا باب کے تحت ہیں۔