ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا: ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سمندر کا مردار حلال ہے اس سے مراد سمندر کے وہ حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل کی طرف بہا دیا ہو اسی کو قرآن میں: «أحل لكم صيد البحر وطعامه»(المائدة: 96) میں طَعام سے مراد لیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ کہلاتا ہے جو خشکی میں زندگی نہ گزار سکے جیسے مچھلی۔ مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں اگر کسی جانور کا نص شرعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کھانا ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ جانور ان کے زمانہ میں موجود تھا تو اس کے نہ کھانے کے بارے میں ان کی اقتداء ضروری ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4355
اردو حاشہ: (1) سمندر کا پانی ذائقے کے لحاظ سے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والے جانوروں اور سفر کرنے والے انسانوں کی گندگی پانی ہی میں رہتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو وہ بھی پانی میں ہی گلتا سڑتا ہے۔ اس سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید وہ پاک نہ ہو، اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ اولاً تو وہ انتہائی کثیر پانی ہے۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ نہ تو پانی متعفن ہوتا ہے اور نہ کوئی آلودگی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ واللہ عزیز حكيم۔ (2)”طاہر ومطہر“ عربی میں لفظ طہور استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں، خود بھی پاک، دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے والا۔ (3)”بلا ذبح حلال ہے“ عربی میں لفظ مَیْتَۃَ استعمال ہوا ہے، یعنی جو بغیر ذبح کیے مر جائے، مثلاً: جسے شکار کیا جائے یا جو طبعی موت پانی میں مر جائے۔ احناف طبعی موت والے آبی جانور کی حلت کے قائل نہیں لیکن حدیث کے الفاظ عام ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث ہر آبی جانور کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں جبکہ امام مالک صرف ان آبی جانوروں کو حلال سمجھتے ہیں جن کے نام کے جانور خشکی میں حلال ہیں۔ اور احناف صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں، کیونکہ بعض روایات میں مچھلی کا لفظ مذکور ہے لیکن قرآن وحدیث کے الفاظ عام ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس مفہوم کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْر﴾(المآئدة: 5: 96) (4) آبی جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس میں خون نہیں ہوتا۔ اور ذبح خون نکالنے کے لیے ہوتا ہے۔ باقی رہا وہ سرخ محلول جو مچھلی وغیرہ سے زخم کے وقت نکلتا ہے تو اس میں خون کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں، مثلاً: اسے دھوپ میں رہنے دیا جائے تو وہ سفید ہو جائے گا جبکہ خون تو سیاہ ہو کر جم جاتا ہے اور حرام خون ہی ہے، لہٰذا اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4355
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 83
´سمندر کا پانی` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في البحر: هو الطهور ماؤه الحل ميتته . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے پانی کے متعلق فرمایا کہ ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے. . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 1]
لغوی تشریح: «كِتَابُ الطَّهَارَةِ» کتاب، کتب سے مشتق ہے جس کے معنی جمع کرنے اور ملانے کے ہیں اور مصنفین کے نزدیک کتاب ان مسائل کے مجموعے کو کہتے ہیں جو مستقل حیثیت کے حامل ہوں چاہے وہ کئی انواع، یعنی مختلف ابواب پر مشتمل ہوں یا نہ ہوں۔ اور طہارت، پلیدی یا ناپاکی کے ازالے کو کہتے ہیں۔
«بَابُ الْمِيَاهِ» ایک ہی مسئلہ یا ایک ہی نوع سے متعلق مستقل حیثیت کے حامل مسائل کو باب سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور «مِيَاهِ: ماء» کی جمع ہے۔ اس کی تصغیر «مُوَیْه» آتی ہے۔ بدوی عربوں نے اس کی صورت بگاڑ کر «مُویَه» کر دی ہے۔ (مصنف) اس کو جمع اس بنا پر لائے ہیں کہ اس باب میں کنوئیں، دریا، سمندر، چشمے اور باران رحمت کے پانی کا ذکر کریں گے۔
«عن ابي هريرةَ» یہ جار مجرور محذوف کے متعلق ہیں جو «رُوِيَ» یا «مَروِيٌ» وغیرہ ہو سکتا ہے اور «فِي البَحرِ» کا مطلب ہے: دریا و سمندر کا کیا حکم ہے۔ «الطَّهُورُ»”طا“ پر فتحہ ہے اور اس سے وہ چیز مراد ہے جس کے ساتھ طہارت حاصل کی جاتی ہے اور یہ «مُطَھّر»(پاک کرنے والا) کے معنی میں ہو گا۔ دریا اور سمندر کا پانی بذات خود پاک بھی ہے اور پاک کرنے والا بھی ہے۔ «الْحِلُّ»”حا“ کے کسرہ اور ”لام“ کی تشدید کے ساتھ ہے۔ اس کے معنی ہیں: حلال۔ «مَيْتَتُهُ» سے وہ جانور مراد ہیں جو پانی ہی میں زندہ رہ سکیں۔ یہ مطلق نہیں ہے اور اس سے وہ جانور مراد نہیں جو پانی کے باہر بھی زندہ رہ سکتے ہوں۔
فوائد ومسائل: ➊ یہ حدیث دراصل ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمائی گئی ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے یوں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں، ہمارے ساتھ تھوڑا بہت پانی ہوتا ہے، اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جاتے ہیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پانی پاک ہے۔“[الموطأ، يحييٰ: 1، 22، و سنن ابي داؤد، الطهارة، باب الوضوء بماء البحر، حديث: 83] ➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سمندری پانی مطلقاً پاک ہے، اس میں کسی قسم کی تفصیل اور تقسیم نہیں ہے، نیز یہ کہ سمندری جانور بھی حلال ہیں، خواہ وہ کسی بھی شکل کے ہوں۔ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم کی یہی رائے ہے البتہ امام ابوحنیفہ رحمه الله سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو سمندری پانی کی حلت کے ساتھ ساتھ بغیر سائل کے دریافت کیے، اس میں طبعی موت مرے ہوئے جانور کی حلت بھی مزید بتا دی، اس لیے کہ جو آدمی سمندری پانی کی حلت کے متعلق شک میں مبتلا ہو سکتا ہے تو وہ اس میں مرے ہوئے جانور کی حلت کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ شک و شبہ میں پڑ سکتا ہے کہ سمندر میں سفر کرنے والا اس صورتحال میں مبتلا ہو سکتا ہے، لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب حکمت ودانائی اور شفقت پر مبنی ہے۔ ➌ یہ سائل کون تھا؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے اس کا نام عبداللہ مدلجی رضی اللہ عنہ کہا ہے اور بعض نے عبد العرکی رضی اللہ عنہ کہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عبید العرکی رضی اللہ عنہ تھا اور عَرَكِي (”عین“ اور ”را“ دونوں پر فتحہ ہے۔) «صیاد السمک» مچھلیاں پکڑنے والے کو کہتے ہیں، یعنی مچھیرا، پھر مچھلیاں پکڑنے کی مناسبت سے اس لفظ کا اطلاق ملاحوں، یعنی کشتی بانوں پر بھی کر دیا جاتا ہے اگرچہ ان کا اصل نام «عَرَك» نہیں ہے۔ ➍ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سمندری پانی پاک ہے۔ اس سے وضو کرنا اور اسے (صاف کر کے) اپنے استعمال میں لانا صحیح ہے۔ ➎ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ جو جانور صرف سمندر کے ہیں (سمندر کے باہر زندہ نہیں رہ سکتے) وہ سب حلال ہیں، چاہے سمندر میں مر جائیں یا نکالنے کے بعد مر جائیں۔ ➏ نیز سمندر میں سفر کرنا جائز ہے۔
راویٔ حدیث: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ: آپ وہ جلیل القدر صحابی رسول ہیں جن سے سب سے زیادہ احادیث نبویہ ہم تک پہنچی ہیں۔ صاحب ”الاستیعاب“ کی رائے کے مطابق ان کا نام عبداللہ یا عبدالرحمٰن تھا۔ قبیلہ دوس سے تھے۔ خیبر والے سال 6 ہجری میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ 78 سال کی عمر پائی اور 59 ہجری میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا اور مدینہ منورہ کے بقیع الغرقد (جنت البقیع) نامی قبرستان میں دفن کیے گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے اور مروان کی جانب سے مدینے کے گورنر بھی رہے۔ ان سے کم و بیش (5384) احادیث مروی ہیں اور ان سے احادیث بیان کرنے والوں کی تعداد (800) سے زائد ہے۔ «والله اعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 83
´سمندر کا پانی پاک` «. . . رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 83]
فوائد و مسائل: ➊ سمندر، دریا اور نہر کا پانی خود پاک ہوتا ہے اور پاک کرنے والا بھی، تو اس سے پینا، نہانا اور دھونا سب جائز ہے۔ اگر کہیں نجاست پڑی ہو تو وہ جگہ چھوڑ دی جائے۔ ➋ مچھلی کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بغیر شکار اپنی موت مر گئی ہو تو بھی حلال ہے اور پانی پاک رہتا ہے اور مچھلی کی تمام انواع اس میں شامل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 83
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 59
´سمندر کے پانی کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 59]
59۔ اردو حاشیہ: ➊ سوال کا سبب یہ تھا کہ سمندری پانی سخت نمکین ہوتا ہے اور اس میں سمندری جانور اور مسافر مرتے رہتے ہیں۔ ان کی گندگی بھی وہیں رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شرعاً ناقابل استعمال ہو، مگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ ان سب کے باوجود سمندری پانی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ماء کثیر ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اس پانی میں ایسے اجزاء شامل فرمائے ہیں کہ اس پانی میں گندگی کرنے کے باوجود تعفن پیدا نہیں ہوتا۔ رنگ، بو اور ذائقہ بھی نہیں بدلتا۔ ➋ «الْحِلُّ مَيْتَتُهُ» یعنی سمندری جانور، جو سمندر میں مر جائیں، حلال ہیں۔ اس جملے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ چونکہ سمندری جانور حلال ہیں (مرنے کے بعد بھی) لہٰذا ان کی موت سے پانی پلید نہیں ہوتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایک مزید حکم معلوم ہو گیا کہ اگر دوران سفر میں کھانے کے لیے ایسا جانور مل جائے تو اسے بلاتردد کھایا جا سکتا ہے۔ یہ بحث کہ اس «میتہ»”مردار“ سے صرف مچھلی مراد ہے یا ہر سمندری جانور، اپنے مقام پر آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ ➌ سوال کرنے والے آدمی کا نام عبداللہ مدلجی تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [عون المعبود: 152/1، حدیث: 83]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 59
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 333
´سمندر کے پانی سے وضو کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں، اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو ہم پیاسے رہ جائیں گے، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک کرنے والا، اور مردار حلال ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 333]
333۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 59 اور اس کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 333
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1
«كتاب الطهارة» طہارت کے مسائل لفظ «كتاب» کی لغوی وضاحت: لفظ «كتاب»، جمع کرنا، ملانا، جس میں لکھا جائے، صحیفہ، فرض اور حکم کے معانی میں مستعمل ہے اور باب «كتب يكتب»(نصر) کا مصدر ہے۔ اصطلاحی تعریف: کتاب مستقل حیثیت کے حامل مسائل کے مجموعے کو کہتے ہیں خواہ وہ کئی انواع (یعنی ابواب) پر مشتمل ہو یا نہ ہو۔ [القاموس المحيط ص /119]۱؎ «الطهارة» لغوی وضاحت: «الطهارة» پاکیزگی، صفائی ستھرائی، پاک ہونا، پاک کرنا سب اس کے معانی ہیں اور یہ باب «طهر يطهر»(نصر، کرم) کا مصدر ہے۔ لفظ «طهور»(طاء کے ضمہ کے ساتھ)”پاک کرنا“ باب «طهر» سے مصدر ہے۔ اور لفظ «طهور»(طاء فتحہ کے ساتھ)”پاک یا پاک کرنے والا“ بروزن ”فعول“ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ «طهر»”حالت حیض کے خلاف حالت کو کہتے ہیں۔“ «تطهير»(تفعیل) کا معنی ”پاک کرنا“ ہے۔ [القاموس المحيط ص/ 289]۲؎ اصطلاحی و شرعی تعریف: (شافعی رحمہ اللہ، نووی رحمہ اللہ) حدث کو رفع کرنا اور نجاست کو زائل کرنا طہارت کہلاتا ہے۔ [المجموع 124/1]۳؎ (حنابلہ، مالکیہ) طہارت ایسی حکمی صفت ہے جو اپنے موصوف کے ساتھ یا اس میں یا اس کے لیے نماز کے جواز کو ثابت کر دیتی ہے۔ [المغني 13/1]۴؎ (حنفیہ) طہارت سے مراد نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنا ہے خواہ نجاست حقیقی ہو (مثلاً گندگی و پاخانہ وغیرہ) یا حکمی ہو مثلا حدث و بےوضگی وغیرہ)۔ [الدر المختار 79/1]۵؎ ------------------ ۱؎[القاموس المحيط ص /119، الدرر 6/1، الصحاح 208/1، أنيس الفقهاء ص/45] ۲؎[القاموس المحيط ص/ 289، الصحاح 227/2، المصباح المنير 579/2، الجواهر المضية 190/2] ۳؎[المجموع 124/1، مغني المحتاج 16/1] ۴؎[المغني 13/1، الشرح الكبير 30/1، الشرح الصغير 20/1] ۵؎[اللباب شرح الكتاب 10/1، الدر المختار 79/1، الكليات لأبي البقاء ص /234، حدود أبن عرفة ص /12، المطلع للبعلي ص/5] * * * * * * * * * * * * * *
«باب اقسام المياه» پانیوں کی اقسام کا بیان «باب» لغوی وضاحت: جس میں ایک ہی نوع سے متعلقہ مسائل بیان کیے جائیں۔ [تحفة الأحوذي 19/1]۱؎ «اقسام المياه» لغوی وضاحت: لفظ «مياه» «مآء»(پانی) کی جمع ہے اس کے جنس ہونے کے باوجود اسے اختلاف انواع (مثلاً کوئیں کا پانی، سمندر کا پانی، چشمے کا پانی وغیرہ) پر دلالت کے لیے جمع لایا گیا ہے۔ [نيل الأوطار 43/1] ● ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا»[25-الفرقان:48] ”اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا۔“ ● ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: «وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ»[8-الأنفال:11] ”اور وہ تم پر آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کرے۔“ ❀ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الْمَاءُ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ» ”پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔“[أبوداود 66]۲؎ ❀ سمندر کے پانی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ» ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“[أبوداود 83]۳؎ ● سادے پانی کے طاہرہ ومطہر ہونے پر اجماع ہے۔ [الفقه الإسلامي وأدلته 260/1] ------------------ ۱؎[تحفة الأحوذي 19/1 نيل الأوطار 43/1] ۲؎[صحيح: صحيح أبو داود 60، كتاب الطهارة: باب ماجاء فى بئر بضاعة أبوداود 66، مسند شافعي 30،أبوداود طيالسي 292،أحمد 31/3، ترمذي 66، نسائي 1781، شرح معاني الآثار 11/1، دارقطني 29/1] ۳؎[صحيح: صحيح أبو داود 76، كتاب الطهارة: باب الوضوء بماء البحر: أبو داود 83، موطا 22/1، ابن أبى شيبة 131/20، أحمد 361/2، دارمي 186/1، ترمذي 69، نسائي 176/1، ابن ماجة 386، ابن خزيمه 111، ابن حبان 119، الموارد ابن الحارود ص /20، دارقطني 36/1، حاكم 140/1، بيهقي 3/1، معرفة السنن والآثار 150/1]
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 127
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث386
´سمندر کے پانی سے وضو کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی رکھتے ہیں، اگر ہم اس پانی سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی بذات خود پاک ہے، اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اس کا مردار حلال ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 386]
اردو حاشہ: (1) سوال کرنے والے صحابی کا نام طبرانی کی روایت میں عبداللہ مذکور ہے اور مسند احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قبیلہ بنو مدلج سے تھا۔ دیکھیے: (سبل السلام شرح بلوغ المرام: 1؍10)
(2) سمندر کے پانی کا ذائقہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے صحابی کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا۔ نبی اکرمﷺنے وضاحت فرما دی کہ سمندر کا پانی پاک بھی ہے اور پاک کرنے والا بھی، اس لیے اس کو وضو وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے (3) سمندر کے مرے ہوئے جانور سے مراد وہ جانور ہےجو پانی میں رہنے والا ہے۔ وہ جس طرح زندہ پکڑا جائے تو حلال ہوتا ہےاسی طرح اگر سمندر میں مرجائے یا سمندر سے باہر آکر مرجائے تو بھی حلال ہے۔ اسے خشکی کے جانور کی طرح ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُالْبَحْرِ وَطَعَامُه﴾(المائدة: 5؍96) تمھارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے۔ البتہ خشکی میں رہنے والا جانور اگر پانی میں ڈوب کر مرجائے تو وہ حرام ہے کیونکہ وہ مردہ سمندری جانور نہیں بلکہ خشکی کا مردہ جانور ہے۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، الذبائح والصيد، باب الصيد اذا غاب عنه يومين او ثلاثة، حديث: 5484)
(4) صحابی نے صرف سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا تھا نبی ﷺ نے پانی کے ساتھ ساتھ سمندر کے جانور کے بارے میں بھی بتا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالم محسوس کرے کہ سائل کو کوئی دوسرا مسئلہ بتانے کی بھی ضرورت ہے جو اس نے نہیں پوچھا تو اس کے پوچھے ہوئے مسئلے کے ساتھ دوسرا مسئلہ بھی بتا دینا چاہیے۔
(5) بعض جانور پانی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خشکی میں بھی۔ کیا انھیں پانی کے جانوروں میں شمار کرنا چاہیے یا خشکی کے جانوروں میں؟ حدیث میں ان میں سے صرف مینڈک کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث مروی ہے جس میں مینڈک کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔ اس حدیث کے بارے میں محمد فواد عبد الباقی نے کہا ہے: (في الزوائد: في اسناده ابراهيم بن الفضل المخزومي وهو ضعيف) زوائد میں لکھا ہے کہ اس کی سند میں ابراہیم بن فضل مخزومی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ لیکن علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح سنن ابن ماجہ میں ذکر کیا ہے۔ ایک اور حدیث امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بلوغ المرام میں ذکر کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طبیب کو دوا میں ڈالنے کے لیے مینڈک مارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہےامام ابو داؤد اور امام نسائی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ دیکھیے: (بلوغ المرام، كتاب الاطعمة، حديث: 13) اس حدیث کی روشنی میں ایسے جانوروں سے پرہیز ہی صحیح معلوم ہوتا ہے جو پانی اور خشکی دونوں پر زندہ رہ سکتے ہیں۔ واللہ أعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 386
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3246
´پانی پر تیرنے والے مردہ سمندری شکار کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتا دیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3246]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سمندر کے پانی ذائقہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہےاس لیے صحابی کو اس کے بارے میں شک ہوا کہ اس سے وضو درست ہے یا نہیں تب رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث 386، 388)
(2) سمندر میں رہنے والا جانور سمندر میں مر جائے تب بھی حلال ہے۔ اور با ہر نکالنے سے مر جائے تب بھی حلال ہے۔
(3) مزید فوائد کےلیے ملاحظہ کیجیے: (سنن ابن ماجة، الطهارۃ، باب الوضوء بماء البحر، حدیث: 386، 388)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3246
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 69
´سمندر کے پانی کے پاک ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ۱؎ ہے، اور اس کا مردار حلال ہے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 69]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی طاہر (پاک) اور مُطَہِّر (پاک کرنے والا) دونوں ہے۔
2؎: سمندر کے مردار سے مراد وہ سمندری اور دریائی جانور ہے جو صرف پانی ہی میں زندہ رہتا ہو، نیز مردار کا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانور جو پانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اور خنزیر کے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”دو مردے حلال ہیں: مچھلی اورٹڈی“، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیر و مثال جانور کھائے جاتے وہی سمندری مردار حلال ہے، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندر کا ہر وہ جانور(زندہ یا مردہ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ نہ ہو، اور نہ ہی خبیث قسم کا ہو جیسے کچھوا، اور کیکڑا وغیرہ، یہ دونوں اصول ضابطہ سمندری غیر سمندری ہر طرح کے جانور کے لیے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 69
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 40
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو کہا اس نے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم سوار ہوتے ہیں سمندر میں اور اپنے ساتھ پانی تھوڑا رکھتے ہیں... [موطا امام مالك: 40]
فائدہ:
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کشتی پر بھی نماز جائز ہے بلکہ وہ فرض نمازیں جن کا مکمل وقت سواری پر ہی ختم ہو جاتا ہو جیسے کہ فجر کا مختصر سا وقت ہوتا ہے، حتٰی کہ اگر ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کی دونوں نمازوں کا مکمل وقت بھی سواری پر ہی گزر جاتا ہو اور اُن کو سواری سے اتر کر پہلے یا بعد میں جمع کرنے کا وقت بھی نہ ملتا ہو تو ایسی نمازوں کو سواری ہی پر پڑھا جا سکتا ہے جیسا کہ آج کل بحری جہاز، ہوائی جہاز اور ٹرین وغیرہ کے سفر میں یہ صورتحال پیش آتی رہتی ہے.....
اس حدیث میں مردار کو سمندر کی طرف منسوب کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرما دیا ہے کہ جو جانور سمندر ہی میں رہتے ہیں اور اُن کا جینا مرنا سمندر ہی میں ہے، وہ تمام ہمارے لیے جائز ہیں، خواہ ان کا شکار کیا جائے یا خود بخود مر جائیں اور خواہ وہ مچھلی کی شکل میں ہوں یا کسی اور صورت میں۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 40