جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن ہم نے گھوڑوں اور نیل گائے کا گوشت کھایا، اور ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھریلو) گدھے (کے گوشت کھانے) سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 6 (1941)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 12 (3192)، (تحفة الأشراف: 2810)، مسند احمد (3/322) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4348
اردو حاشہ: جنگلی گدھا صرف نام کا گدھا ہوتا ہے۔ اس کے صرف کھر گدھے کی طرح ہوتے ہیں۔ ورنہ حقیقتاً وہ جنگلی گائے ہے۔ شکل وصورت کے لحاظ سے بھی گائے ہوتی ہے۔ صرف کھروں کی وجہ سے اسے جنگلی گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ جنگلی گائے ایک خوبصورت جانور ہے بلکہ خوبصورتی میں ضرب المثل ہے۔ یہ قطعاً حلال ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4348
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4332
´گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4332]
اردو حاشہ: جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑا حلال جانور ہے کیونکہ اس کی حلت کی روایات صریح ہیں اور اعلیٰ درجے کی صحیح ہیں۔ ائمہ میں سے صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گھوڑے کی حرمت کے قائل ہیں لیکن ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہ اللہ اس مسئلے میں ان کے ساتھ نہیں، مانعین کی طرف سے یہ معذرت پیش کی گئی ہے کہ وہ گھوڑے کو پلید نہیں سمجھتے، بلکہ قابل احترام ہونے کی وجہ سے حرام سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جہاد میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر گھوڑے ذبح کر کے کھائے جائیں تو جہاد کے لیے گھوڑوں کی قلت ہو جائے گی۔ ان کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ گھوڑا جنسی لحاظ سے گدھے اور خچر کا ساتھی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ان تینوں کا اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً﴾(النحل: 16: 8) ان کا مقصد زینت اور سواری بیان کیا گیا ہے نہ کہ کھانا، لہٰذا گھوڑے کو کھانا نہیں چاہیے لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو کھائے جانے والے جانوروں میں ذکر کیا ہے جبکہ اسے خوراک کی بجائے سواری او ر باربرداری میں بھی یکساں استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ گھوڑا حلال ہے۔ اگر ضرورت پڑ جائے تو اسے کھایا جا سکتا ہے۔ ہاں، جہاد کے لیے قلت کا خطرہ ہو تو پھر گھوڑے نہ کھائے جائیں لیکن آج کل تو جہاد میں گھوڑوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا وہ وجہ بھی ختم ہوگئی جس کی بنا پر امام صاحب اس کے نہ کھانے کے قائل تھے۔ گویا اب تو اس کی حلت پر ”اجماع“ ہوگیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4332
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3808
´گھریلو گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا، اور ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ عمرو کہتے ہیں: ابوالشعثاء کو میں نے اس حدیث سے باخبر کیا تو انہوں نے کہا: حکم غفاری بھی ہم سے یہی کہتے تھے اور اس «بحر»(عالم) نے اس حدیث کا انکار کیا ہے ان کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3808]
فوائد ومسائل: فائدہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم وفضل کی بنا پر انہیں (بحر الأمة یا حبر الأمة) کہا جاتا ہے۔ اور گدھوں کے بارے میں ان کا یہ قول شاید وضاحت کے ساتھ حدیث نہ پہنچنے کے سبب تھا۔ صحیحین میں شعبی کے حوالے سے ان کا قول مروی ہے۔ کہ مجھے معلوم نہیں کہ (خیبر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے اس وجہ سے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ کہ لوگ سواریوں سے محروم نہ ہوجایئں۔ یا ان کو حرام قرار دیا تھا۔ لیکن بالاخر جب انھیں بالوضاحت حرمت کی احادیث پہنچیں۔ حضرت ابی طالب سے بھی ان کی بحث ہوئی تو یقین کے ساتھ وہ ان کی حرمت کے قائل ہوگئے تھے۔ (فوائد ابن القیم)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3808
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3191
´گھوڑوں کے گوشت کا حکم۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کے زمانہ میں گھوڑے اور نیل گائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3191]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جنگلی گدھے کو گورخر بھی کہتے ہیں۔ (اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے: (حدیث: 3090کا فائدہ نمبر: 1)
(2) عام گدھا حمار اهلي (پالتو گدھا) کہلاتا ہے۔ یہ حرام ہے جیسے کہ اگلی حدیث میں آ رہاہے۔
(3) بعض علماء نے گھوڑوں کو حرام قراردیا ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَالْخَيْلَ وَالَبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَة﴾(النحل: 8، 16) “ اور (اللہ نے تمھارے لیے) گھوڑے، خچراور گدھے (پیدا کیے) تاکہ تم ان پر سواری کرو اور (وہ تمھاری) زینت (ہوں۔ ’‘) یہاں کھانے کا ذکر نہیں۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ ایک فائدے کے ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ اس کا دوسرا کوئی فائدہ نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابو داود، (اردو طبع دارالسلام)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3191
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3197
´خچر کے گوشت کی حرمت کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے، میں نے کہا: اور خچروں کا؟ کہا: نہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3197]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) خچر کا گوشت کھانا منع ہے۔
(2) خچر کی پیدائش گدھے اور گھوڑے کے اختلاط سے ہوتی ہے۔ گدھا حرام ہے اور گھوڑی حلال ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک چیز میں حلت کا پہلو بھی موجود ہو اور حرمت کا بھی تو حرمت کے پہلو کو ترجیح حاصل ہوگی اور وہ چیز حرام ہوگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3197
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1793
´گھوڑے کا گوشت کھانے کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑے کا گوشت کھلایا، اور گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1793]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہواکہ گھوڑے کا گوشت حلا ل ہے، سلف و خلف میں سے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر علما کی اکثریت اس کی حلت کی قائل ہے، جو اسے حرام سمجھتے ہیں، یہ حدیث اور اسی موضوع کی دوسری احادیث ان کے خلاف ہیں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گدھے کا گوشت حرام ہے، اس کی حرمت کی وجہ جیسا کہ بخاری میں ہے یہ ہے کہ یہ ناپاک اور پلید حیوان ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1793
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1291
1291- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں کا گوشت کھلایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گدھوں کے گوشت سے منع کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1291]
فائدہ: اس حدیث میں گھوڑے کی حلت اور گدھے کی حرمت کا بیان ہے، گھوڑا حلال ہے، عطاء تابعی کہتے ہیں: ´´لم يزل سلفك يأكلونه`` ”تیرے سلف گھوڑے کو ہمیشہ کھاتے رہے ہیں“ ابن جریح فرماتے ہیں: میں نے عطاء سے کہا: ´آپ تیرے سلف سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ یہم اجمعین لے رہے ہیں؟` انہوں نے کہا: ہاں۔ (مسند ابن ابی شیبه، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو باسناد صحيح علی شرط شیخین قرار دیا ہے۔ فتح الباری: 650 / 9)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1289
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5023
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم نے خیبر کے دور میں گھوڑے اور جنگلی گدھے کھائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھریلو گدھے کھانے سے روک دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5023]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنگلی گدھے (نیل گائے) کا گوشت کھانا بالاتفاق جائز ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5023
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5520
5520. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا: لیکن گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5520]
حدیث حاشیہ: از حضرت الاستاذ مولانا ابو الحسن عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری مد ظلہ العالی گھوڑے کی بلا کراہیت حلت کے قائل، امام شافعی اور امام احمد کے علاوہ صاحبین اور طحاوی حنفی بھی ہیں۔ امام مالک سے کراہیت تنزیہی اور تحریمی دونوں منقول ہیں۔ امام ابو حنیفہ سے تین قول منقول ہیں کراہت تنزیہی و تحریمی، رجوع عن القول بالتحریم۔ حنفیہ کے ہاں اصح اور ارجح قول تحریم کا ہے۔ طرفین کے دلائل اور جوابات شروح بخاری (فتح الباري، عیني) شرح مؤطا امام مالک للزرقانی و شرح معانی الآثار للطحاوی میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ حلت کے دلائل واضحہ قویہ آ جانے کے بعد تعامل یا عمل امت کی طرف التفات بے معنی اور لغو کام ہے۔ حجت شرعی کتاب و سنت اور اجماع پھر قیاس صحیحہ ہے گھوڑے کا عام اور بڑا مصرف شروع ہی سے سواری رہا ہے۔ اس لیے اس کے کھانے کا رواج نہیں ہے۔ علاوہ بریں عطاء بن ابی رباح سے تمام صحابہ کی طرف سے بلا استثناء احد ے اکل لحم خیل کی نسبت ثابت ہے: کان السلف (أي الصحابة) کانوا یأکلون (ابن أبي شیبة)(عبیداللہ رحمانی مبارک پوری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5520
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5520
5520. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا: لیکن گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5520]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ ہم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑے کا گوشت کھایا۔ (إرواء الغلیل للألباني: 145/8، رقم: 2493) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فرضیتِ جہاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ جو لوگ جہاد کی آڑ میں اسے حرام کہتے ہیں، یہ روایت ان کے خلاف ہے۔ پھر ایک روایت میں ہے کہ ہم نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے اسے کھایا تھا، (المعجم الکبیر للطبراني: 87/24، رقم: 232) اس سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بخوبی علم تھا حتی کہ آپ کے اہل خانہ نے اسے تناول فرمایا۔ چونکہ گھوڑے کا عام استعمال سواری رہا ہے، اس لیے اس کے کھانے کا رواج عام نہیں ہوا۔ اگرچہ گھوڑا دشمن کو خوفزدہ کرنے اور اسے ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی حلت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عطاء سے بیان کیا ہے کہ اسلاف اس کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ ابن جریج نے مزید پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی؟ انہوں نے فرمایا: وہ بھی اسے کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 804/9) اس کی مزید تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5520
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5524
5524. سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع ہر (گھریلو) گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5524]
حدیث حاشیہ: ایک حدیث جسے غالب بن ابجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، گھریلو گدھے کھانے کے متعلق بطور جواز پیش کی جاتی ہے، انہوں نے کہا: ہم قحط سے دوچار ہوئے۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو میں اپنے گھر والوں کو کھلا سکتا، صرف چند گدھے ہی تھے۔ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کر دیے تھے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہم قحط زدہ ہیں اور میرے پاس کوئی چیز نہیں جو میں اپنے اہل خانہ کو کھلا سکوں، چند ایک موٹے تازے گدھے ہیں لیکن آپ نے پالتو گدھوں کا گوشت حرام کر دیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”اپنے اہل خانہ کو کھلا سکوں، چند ایک موٹے تازے گدھے ہیں لیکن آپ نے پالتو گدھوں کا گوشت حرام کر دیا ہے تو آپ نے فرمایا: “ اپنے اہل خانہ کو ان موٹے گدھوں میں سے کھلا دو۔ میں نے انہیں اس لیے حرام کیا تھا کہ یہ بستی کی گندگی کھاتے ہیں۔ “(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3809) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا متن شاذ اور صحیح احادیث کے خلاف ہے، لہذا یہ حدیث بطور دلیل نہیں پیش کی جا سکتی۔ (فتح الباري: 811/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5524