(مرفوع) اخبرنا مسلم بن عمرو بن مسلم، قال: حدثني ابن نافع، عن الليث بن سعد، عن بكر بن سوادة، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد،" ان رجلين تيمما وصليا ثم وجدا ماء في الوقت فتوضا احدهما وعاد لصلاته ما كان في الوقت ولم يعد الآخر، فسالا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال للذي لم يعد: اصبت السنة واجزاتك صلاتك، وقال للآخر: اما انت فلك مثل سهم جمع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، قال: حَدَّثَنِي ابْنُ نَافِعٍ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،" أَنَّ رَجُلَيْنِ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا ثُمَّ وَجَدَا مَاءً فِي الْوَقْتِ فَتَوَضَّأَ أَحَدُهُمَا وَعَادَ لِصَلَاتِهِ مَا كَانَ فِي الْوَقْتِ وَلَمْ يُعِدِ الْآخَرُ، فَسَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ، وَقَالَ لِلْآخَرِ: أَمَّا أَنْتَ فَلَكَ مِثْلُ سَهْمِ جَمْعٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، پھر انہیں وقت کے اندر ہی پانی مل گیا، تو ان میں سے ایک شخص نے وضو کر کے وقت کے اندر نماز دوبارہ پڑھ لی، اور دوسرے نے نماز نہیں دہرائی، ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے اس شخص سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا: ”تم نے سنت کے موافق عمل کیا، اور تمہاری نماز تمہیں کفایت کر گئی“، اور دوسرے سے فرمایا: ”رہے تم تو تمہارے لیے دوہرا اجر ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 128 (338، 339)مرسلاً، سنن الدارمی/الطھارة 65 (771)، (تحفة الأشراف 4176) (صحیح) (اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، کیوں کہ ابن نافع کے حفظ میں تھوڑی سی کمی ہے، اور دیگر ثقات نے اس کو مرسل ہی روایت کیا ہے)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 433
433۔ اردو حاشیہ: ➊ اصل قاعدہ یہی ہے کہ تیمم پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کی طرح ہے، لہٰذا نماز دہرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس شخص کا اجتہاد صحیح تھا تبھی اسے ”سنت“ فرمایا اور دوسرے شخص کا اجتہاد اگرچہ صحیح نہیں مگر چونکہ نیت نیک ہے، مشقت بھی زیادہ اٹھائی ہے اور عمل صالح بھی دو مرتبہ کیا ہے، لہٰذا وہ ثواب کا حق دار بنا۔ لیکن اب دہرانے کی اجازت نہیں کیونکہ مسئلہ واضح ہو چکا ہے اور سنت متعین ہو چکی ہے۔ اب اجتہاد کی ضرورت ہے نہ اجازت۔ اور ایک فرض نماز دو دفعہ فرض کی نیت سے پڑھنا ممنوع ہے۔ ➋ «سَهْمِ جَمْعٍ» کے معنی ہیں: دہرا ثواب، یعنی پہلی نماز کا بھی اور دوسری کا بھی۔ بعض حضرات نے اس کے معنی لشکر کا حصہ، یعنی ”غنیمت“ کیے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 433
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 113
´تیمّم سے نماز ادا کی اور بعد میں دوران وقت ہی میں پانی ملنا` «. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت . . .» ”. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے۔ نماز کا وقت آ گیا، مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر پانی بھی دستیاب ہو گیا اور ابھی نماز ادا کرنے کا وقت باقی تھا۔ ان میں سے ایک صاحب نے وضو کیا اور دوبارہ نماز ادا کی، مگر دوسرے صاحب نے نہ تو وضو کیا اور نہ ہی نماز دہرائی . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 113]
لغوی تشریح: «أَصَبْتَ السُّنَّةَ» تو نے شرعی طریقہ پا لیا۔ «أَجْزَأَتْكَ» یعنی تجھے کافی ہو گئی۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تیمّم کر کے نماز ادا کر لی گئی ہو اور بعد میں دوران وقت ہی میں پانی مل گیا ہو تو ایسی صورت میں نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ فقہائے اربعہ کا یہی مذہب ہے۔ ➋ جس آدمی نے نماز دوبارہ پڑھی تھی اسے دوگنا اجر ملنے کی توجیہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اجر تو اسے نماز پڑھنے کا ملا اور دوسرا اجتہاد کرنے کا۔ ➌ اجتہاد اگرچہ درست نہیں تھا تاہم محنت و کوشش پر بھی ایک اجر ملتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 113
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 338
´تمیم کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کفایت کر جاتی ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں` «. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ فَتَيَمَّمَا صَعِيدًا طَيِّبًا فَصَلَّيَا، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فِي الْوَقْتِ فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ وَالْوُضُوءَ وَلَمْ يُعِدِ الْآخَرُ، ثُمَّ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ، وَقَالَ لِلَّذِي تَوَضَّأَ وَأَعَادَ: لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ . . .» ”. . . ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی: ”تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی“، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا: تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 338]
فقہ الحدیث: ➊ پانی میسر نہ ہونے کی صورت میں تمیم کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کفایت کر جاتی ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں، اگرچہ نماز کے وقت ہی میں پانی مل جائے، جیسا کہ حدیث سے واضح ہو رہا ہے۔ ➋ جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی، اس کی اِس دہری مشقت کی وجہ سے اسے ”دہرے اجر“ کی نوید سنائی گئی ہے۔ ➌ واضح نص نہ ہونے کی بنا پر اجتہاد کیا جا سکتا ہے، لیکن نصوص کتاب و سنت کی موجودگی میں کوئی اجتہاد نہیں، اسی طرح دلائل واضح ہونے کے بعد وہ اجتہاد کالعدم قرار پائے گا، لہٰذا اب اس سلسلے میں صحابی کے اجتہاد کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل ہو گا۔