● صحيح البخاري | 3527 | عبد الرحمن بن صخر | يا بني عبد مناف اشتروا أنفسكم من الله يا بني عبد المطلب اشتروا أنفسكم من الله يا أم الزبير بن العوام عمة رسول الله يا فاطمة بنت محمد اشتريا أنفسكما من الله لا أملك لكما من الله شيئا سلاني من مالي ما شئتما |
● صحيح البخاري | 4771 | عبد الرحمن بن صخر | اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا ياعباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا |
● صحيح البخاري | 2753 | عبد الرحمن بن صخر | اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا |
● صحيح مسلم | 501 | عبد الرحمن بن صخر | أنقذوا أنفسكم من النار يا بني مرة بن كعب أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد شمس أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد مناف أنقذوا أنفسكم من النار يا بني هاشم أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد المطلب أنقذوا أنفسكم من النار يا فاطمة أنقذي نفسك من النار لا أملك ل |
● صحيح مسلم | 504 | عبد الرحمن بن صخر | اشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد المطلب لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت رسول الله سليني بما شئت لا أغني عنك من الله شيئا |
● جامع الترمذي | 3185 | عبد الرحمن بن صخر | لما نزلت وأنذر عشيرتك الأقربين |
● سنن النسائى الصغرى | 3674 | عبد الرحمن بن صخر | أنقذوا أنفسكم من النار يا فاطمة أنقذي نفسك من النار إني لا أملك لكم من الله شيئا لكم رحما سأبلها ببلالها |
● سنن النسائى الصغرى | 3676 | عبد الرحمن بن صخر | اشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد المطلب لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت لا أغني عنك من الله شيئا |
● سنن النسائى الصغرى | 3677 | عبد الرحمن بن صخر | اشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة سليني ما شئت لا أغني عنك من الله شيئا |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3674
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے مراد پورا قبیلہ ہے‘ خواہ مسلم ہوں یاکافر۔ وراثت میں چونکہ کفر مانع ہے‘ لہٰذا رشتہ داروں کے لیے وصیت کی صورت میں کافر رشتہ داروں کو نہیں شامل کیا جائے گا۔
(2) ”آگ سے بچالو“ یعنی جہنم کی آگ سے بچالو۔ کفر وشرک کو چھوڑ کر اور میری اطاعت کرکے۔
(3 ”اختیار نہیں رکھتا“ کہ تمہیں اللہ کی رحمت دے سکوں یا تم سے اس کا عذاب کو روک لوں۔ باقی رہی شفاعت تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ مفید ہے‘ لہٰذا اس میں بھی ”مختار کل“ نہیں۔
(4) رشتہ داری کے تقاضوں سے مراد دنیوی لین دین‘ ہمدردی اور تبلیغ وغیرہ ہیں۔
(5) تبلیغ میں رشتہ داری کو مقدم کرنے کا مقصد بھی ان کی قرابت کا حق ادا کرنا اور ان پر حجت قائم کرنا ہے تاکہ غیر قرابت داروں کو اعتراض کا موقع نہ مل سکا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3674
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2753
´روز قیامت اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی `
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/بَابُ هَلْ يَدْخُلُ النِّسَاءُ وَالْوَلَدُ فِي الأَقَارِبِ: 2753]
تخريج الحديث:
[123۔ البخاري فى: 55 كتاب الوصايا: 11 باب هل يدخل النساء والولد فى الأقارب 2705 مسلم 206]
فھم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی، روز قیامت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا حتی کہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے مشرک رشتہ داروں کو نہیں بچا سکیں گے۔ قرآن میں ہے کہ «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ» [الانعام: 164] ”(روز قیامت) کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ لہٰذا کسی پیر، فقیر، بزرگ، درویش، ولی اور امام پر تکیہ کر کے بلا جھجک گناہوں میں مصروف رہنا دانشمندی نہیں۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 123
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3676
´اپنے قریبی خاندان والوں کے لیے وصیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آیت: «وأنذر عشيرتك الأقربين» ”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اے قریش کی جماعت! تم! اپنی جانوں کو اللہ سے (اس کی اطاعت کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے بنی عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے کچھ بھی نجات نہیں دلا سکتا، اے صفیہ! (رسول اللہ صل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3676]
اردو حاشہ:
”فائدہ نہ دے سکوں گا“ یعنی اگر تم مسلمان نہ ہوئے‘نیز اپنے اختیار سے تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3676
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3185
´سورۃ الشعراء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين» ”اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے“ نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3185]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ دوسری عام مجلس ہو گی،
اور پہلی مجلس خاص اہل خاندان کے ساتھ ہوئی ہو گی؟۔
2؎:
یعنی اس کا حق (اس دنیا میں) ادا کروں گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3185
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 501
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری: ”اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“ (الشعراء: 214) تو رسول اللہﷺ نے قریش کو بلایا، جب جمع ہوگئے، تو آپ نے خطاب میں عام اور خاص لوگوں کو مخاطب فرمایا: ”اے کعب بن لوئی کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ! اے مرّہ بن کعب کی اولاد! اپنے آپ کو دوزخ سے بچا لو! اے عبد شمس کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ! اے عبد مناف کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ! اے ہاشمیو! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ! اے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:501]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا:
میری رشتہ داری پر اعتماد کر کے ایمان و عمل صالح سے غافل نہ ہو جانا،
ایمان کے بغیر میں تم سے عذاب کو دور نہ کر سکوں گا۔
(2)
سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا:
بَِلال کی (باء)
پر زبر اور زیر دونوں آ سکتے ہیں،
طراوت کو کہتے ہیں،
مقصد یہ ہے،
میں تمہارے ساتھ صلہ رحمی کروں گا،
قطع رحمی نہیں کروں گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 501
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 504
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ پر سورۂ شعراء کی آیت: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) اتری تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے قریش کی جماعت! اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو (ایمان لا کر نیک اعمال کر لو)، میں اللہ تعالی کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ کے مقابلہ میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اے عبدالمطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے مقابلہ میں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں تم سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:504]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سورۂ شعراءمکی سورت ہےحضرت ابوہریرہ ؓ مدینہ میں سات ہجری میں مسلمان ہوئے،
اس لیے قریش مکہ سے خطاب کے وقت وہ موجودنہیں تھے،
اس لیے یہ روایت انہوں نےکسی دوسرےصحابی سےسنی ہوگی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 504
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2753
2753. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ”اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔“ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے جمیعت قریش!۔۔۔ یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔۔۔ تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خریدلو، میں اللہ کے حضور تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف!میں اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا اے عباس بن عبدالمطلب!میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ!جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کرسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ﷺ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کرسکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا۔“ اصبغ نے زہری سے روایت کرنے میں ابن وہب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2753]
حدیث حاشیہ:
پچھلی حدیث میں پہلے آپ نے قریش کے کل لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص آپ کی قوم کے لوگ تھے۔
پھر عبد مناف اپنے چوتھے داداکی اولاد کو۔
پھر خاص اپنے چچا اور پھوپھی یعنی دادا کی اولاد کو پھر خاص اپنی اولاد کو۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ قرابت والوں میں عورتیں داخل ہیں۔
کیونکہ حضرت صفیہ ؓ اپنی پھوپھی کو بھی آپ نے مخاطب کیا اور بچے بھی اس لئے کہ حضرت فاطمہ ؓ جب یہ آیت اتری کم سن بچی تھیں‘ آپ نے ان کو بھی مخاطب فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2753
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3527
3527. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اےفرزندان عبد مناف!اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو چھڑالو۔ اے فرزندان عبد المطلب!تم بھی اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچا لو۔ اے زبیر بن عوام کی والدہ!رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی!اے فاطمہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا!تم دونوں بھی اپنے آپ کو اللہ کی پکڑسے بچالو۔ میں تمھارےکام نہیں آسکوں گا۔ تم میرے مال سے جتنا چاہو مانگ سکتی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3527]
حدیث حاشیہ:
باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خاندانوں کو ان کے پرانے آباءو اجداد ہی کے ناموں سے پکارا، معلوم ہوا کہ ایسی نسبت عند اللہ معیوب نہیں ہے جیسے یہاں کے بیشتر مسلمان اپنے پرانے خاندانوں ہی کے نام سے اپنے کو موسوم کرتے ہیں۔
دوسری روایت میں یوں ہے اے عائشہ! اے حفصہ! اے ام سلمہ! اے بنی ہاشم! اپنی اپنی جانوں کو دوزخ ے چھڑاؤ۔
معلوم ہواکہ اگر ایمان نہ ہوتو پیغمبر ﷺ کی رشتہ داری قیامت میں کچھ کام نہ آئے گی۔
اس حدیث سے اس شرکیہ شفاعت کا بالکل رد ہوگیا جو بعض نام کے مسلمان انبیاءاور اولیاءکی نسبت یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جس کے دامن کو چاہیں گے پکڑکر اپنی شفاعت کراکے بخشوا لیں گے۔
یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3527
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4771
4771. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر فرمانے لگے: ”اے جماعت قریش! یا اس جیسا کوئی اور کلمہ کہا۔ تم اپنی جانوں کو (اللہ کے عذاب سے) خرید لو۔ میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبدمناف! میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ! جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کے ہاں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو۔ میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔“ اصبغ نے ابن وہب سے، انہوں نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے ابویمان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4771]
حدیث حاشیہ:
اس سے ان نام نہاد مسلمانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو زندہ مردہ پیروں فقیروں کا دامن اس لئے پکڑے ہوئے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ان کو بخشوا لیں گے۔
کتنے کم عقل نذر ونیاز کے اسی چکر میں گرفتار ہیں اور روزانہ ان کے گھروں میں نت نئی نیازیں ہوتی رہتی ہیں۔
سترہویں کا بکرا اور گیارہویں کا مرغا یہ ایسے ہی دھوکے ہیں۔
اللہ پاک مسلمانوں کو ان سے نجات بخشے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4771
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2753
2753. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ”اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔“ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے جمیعت قریش!۔۔۔ یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔۔۔ تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خریدلو، میں اللہ کے حضور تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف!میں اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا اے عباس بن عبدالمطلب!میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ!جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کرسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ﷺ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کرسکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا۔“ اصبغ نے زہری سے روایت کرنے میں ابن وہب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2753]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے پہلے قریش کے تمام لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص طور پر آپ کی قوم کے لوگ تھے، پھر عبد مناف اپنے چوتھے دادا کی اولاد کو آواز دی، اس کے بعد خاص اپنے چچا اور پھوپھی، یعنی دادا کی اولاد کو پکارا، پھر اپنی خاص اولاد کو دعوت فکر دی۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا کہ قرابت داروں میں عورتیں اور بچے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو شامل فرمایا۔
لیکن وصیت میں صرف وہ رشتے دار شامل ہوں گے جو اس کے ترکے میں شرعی وارث نہ ہوں۔
(3)
واضح رہے کہ اگر کسی نے قرابت داروں کے لیے وصیت کی ہو تو امام ابو حنیفہ ؓ کے نزدیک ہر وہ قرابت دار مراد ہو گا جو رحم کے ناتے سے ہو، بشرطیکہ وہ محرم ہو، خواہ باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے لیکن ابتدا باپ کی طرف سے ہو گی، مثلا:
اگر چچا اور ماموں ہے تو وصیت چچا کے لیے ہو گی۔
اگر وہ نہ ہو تو ماموں حق دار ہو گا، البتہ ان کی اولاد کو وصیت شامل نہیں ہو گی کیونکہ ان کی اولاد سے رحم کا رشتہ تو ہے لیکن وہ محرم نہیں ہیں۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
ہر ذی رحم پر قرابت کا اطلاق ہو گا، خواہ وہ محرم ہو یا غیر محرم۔
ان کے نزدیک چچا، پھوپھی اور ماموں کی اولاد بھی قرابت میں شامل ہو گی۔
امام طحاوی ؒ نے قرابت کے متعلق پانچ اقوال اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد امام ابو حنیفہ ؒ کے موقف کو باطل قرار دے کر امام شافعی ؒ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔
(شرح معاني الآثار: 425/2)
امام طحاوی ؒ کے اس جراءت مندانہ کردار کی علامہ عینی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایک مجتہد امام جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے احکام کو استنباط کرتا ہے اس کا یہی انداز ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی ؒنے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد)
کے قول کو ترک کر دیا ہے۔
(عمدة القاري: 33/10)
آخر میں امام بخاری ؒ کی ذکر کردہ متابعت کو امام ذہلی نے زہریات میں متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز امام مسلم ؒ نے بھی ابن وہب کے حوالے سے روایت کیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 504(206)
، و فتح الباري: 468/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2753
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3527
3527. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اےفرزندان عبد مناف!اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو چھڑالو۔ اے فرزندان عبد المطلب!تم بھی اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچا لو۔ اے زبیر بن عوام کی والدہ!رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی!اے فاطمہ بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا!تم دونوں بھی اپنے آپ کو اللہ کی پکڑسے بچالو۔ میں تمھارےکام نہیں آسکوں گا۔ تم میرے مال سے جتنا چاہو مانگ سکتی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3527]
حدیث حاشیہ:
1۔
آیت کریمہ میں عشیرہ کی نسبت آپ کی طرف کی گئی ہے،حالانکہ دونوں قبائل کافر تھے،پھر ان کو نام بنام پکار کر آپ کا دعوت دینا آپ کی طرف سے اس نسبت کو تسلیم کرلینا ہے کہ یہ قبائل آپ کے قریبی رشتے دار تھے۔
اس سے معلوم ہواکہ ایسی نسبت عنداللہ معیوب نہیں۔
ہمارے ہاں اکثر مسلمان اپنے پُرانے خاندانوں ہی کے نام سے خود کو منسوب کرتے ہیں۔
2۔
یاد رہے انبیاء ؑ اور اولیاء کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ ان کی نسبت سے ہمیں قیامت کےدن جنت کا پروانہ مل جائے گا،یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔
3۔
بہرحال ان احادیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ انسان اپنے آباءواجداد کی طرف خود کو منسوب کرسکتا ہے،خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان،البتہ ان کے متعلق غلط عقیدہ رکھنا درست نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3527
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4771
4771. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر فرمانے لگے: ”اے جماعت قریش! یا اس جیسا کوئی اور کلمہ کہا۔ تم اپنی جانوں کو (اللہ کے عذاب سے) خرید لو۔ میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبدمناف! میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ! جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کے ہاں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو۔ میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔“ اصبغ نے ابن وہب سے، انہوں نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے ابویمان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4771]
حدیث حاشیہ: 1۔
اِنذَار کی چار صورتیں ہیں:
اِنذَار عشيره، اِنذَار قوم، اِنذَارعرب اور اِنذَار جميع بني آدم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چارصورتوں کواختیار فرمایا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے قریش کے گروہ! تم اپنی جانوں کودوزخ سے بچا لو۔
“(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 501(204)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں انگلیوں کو کانوں میں دے کر بآواز بلند کہا:
”اے بنی عبد مناف! تم پر صبح کے وقت کوئی لشکر حملہ کرنے والا ہے۔
“ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3186)
2۔
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ اگر خاتمہ کفر پر ہوتو خاندانی تعلق قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں دے گا یہاں تک کہ پیغمبر کی اولاد اور بیوی بھی اگرمومن نہیں تو بھی رسول انھیں قیامت کے دن کوئی نفع نہیں دے سکے گا جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا معاملہ ہے۔
3۔
یہاں ایک اشکال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔
“ حالانکہ قیامت کے دن آپ کی سفارش سے گناہوں کی معافی اور عذاب سے نجات ملے گی؟ اس کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں:
۔
ابھی تک آپ کو اپنی شفاعت کبریٰ اور صغریٰ کا علم نہیں تھا کیونکہ یہ آغاز اسلام کا واقعہ ہے۔
۔
سفارش کرنے والا فائدہ نہیں دے سکتا وہ تو التجا کرسکتا ہے، اگرقبول ہوجائے تو ٹھیک بصورت دیگر وہ کسی کو مجبور نہیں کرسکتا توآپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ میں چھڑا تو نہیں سکتا، البتہ سفارش ضرور کروں گا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی اللہ کی اجازت سے ہوگی، گویا آپ نے فرمایا ہے کہ میں ذاتی طور پر کچھ نہیں کرسکوں گا، ہاں اللہ کے اذن سے تمہاری سفارش ضرور کروں گا، گویا آپ کی سفارش اللہ کے اذن سے مقید ہے۔
واللہ اعلم۔
4۔
اس حدیث سے ان نام نہاد مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے جو زندہ اور مردہ پیروں، فقیروں کا دامن اس لیے پکڑے ہوئے ہیں کہ وہ قیامت کے دن انھیں بخشوا لیں گے۔
بہت سےکم عقل لوگ نذر ونیاز کے اسی چکر میں گرفتار ہیں۔
بہرحال اللہ کے حضور کسی نبی، ولی، فرشتے اور مقرب شخص کو دم مارنے کی جرءت نہیں ہوگی ہاں سفارش کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی اللہ کے اجازت سے ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن سرخرو فرمائے۔
آمین هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4771