(مرفوع) اخبرنا عبد الحميد بن محمد، قال: حدثنا مخلد، قال: حدثنا ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال:" طلقت خالته، فارادت ان تخرج إلى نخل لها فلقيت رجلا فنهاها، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اخرجي، فجدي نخلك لعلك ان تصدقي وتفعلي معروفا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" طُلِّقَتْ خَالَتُهُ، فَأَرَادَتْ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى نَخْلٍ لَهَا فَلَقِيَتْ رَجُلًا فَنَهَاهَا، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" اخْرُجِي، فَجُدِّي نَخْلَكِ لَعَلَّكِ أَنْ تَصَدَّقِي وَتَفْعَلِي مَعْرُوفًا".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی (اسی دوران) انہوں نے اپنے کھجوروں کے باغ میں جانے کا ارادہ کیا تو ان کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے انہیں باغ میں جانے سے روکا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں (آپ سے اس بارے میں پوچھا) تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنے باغ میں جا سکتی ہو، توقع ہے (جب تم اپنے باغ میں جاؤ گی، پھل توڑو گی تو) تم صدقہ کرو گی اور (دوسرے) اچھے بھلے کام کرو گی“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3580
اردو حاشہ: ضرورت ہو تو سوگ والی عورت گھر اور کھیت میں کام کرسکتی ہے۔ ممکن ہے کوئی اور کام کرنے والا نہ ہو۔ شریعت لوگوں کی ضروریات اور مجبوریوں کا بہت لحاظ رکھتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3580
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2297
´تین طلاق دی ہوئی عورت دن میں باہر نکل سکتی ہے۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں، وہ اپنی کھجوریں توڑنے نکلیں، راستے میں ایک شخص ملا تو اس نے انہیں نکلنے سے منع کیا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور اپنی کھجوریں توڑو، ہو سکتا ہے تم اس میں سے صدقہ کرو یا اور کوئی بھلائی کا کام کرو۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2297]
فوائد ومسائل: مطلقہ عورت اپنے ایام عدت میں کسی لازمی اور مناسب کا م کے لئے گھر سے باہر جا سکتی ہے، مگر ضروری ہے کہ رات کو اپنے گھر واپس آجائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2297
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2034
´کیا عورت عدت میں گھر سے باہر نکل سکتی ہے؟` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی، پھر انہوں نے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک شخص نے انہیں گھر سے نکل کر باغ جانے پر ڈانٹا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے، تم اپنی کھجوریں توڑو، ممکن ہے تم صدقہ کرو یا کوئی کار خیر انجام دو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2034]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر کوئی ایسی ضرورت پیش آ جائے جس کے لیے عورت کا گھر سے نکلنا ضروری ہوتو عدت میں بھی گھر سے نکل سکتی ہے۔
(2) حضرت جابر کی خالہ اگر باغ کا پھل نہ اترواتیں تو پھل ضائع ہو جاتا، لہٰذا فصل ضائع ہونے سے بچانے کےلیے انہیں گھر سے نکلنا پڑا۔
(3) نیکی کے کام سے بعض علماء نے فرض زکاۃ کی ادائیگی مراد لیے ہے، یعنی پھل گھر آئے گا تو تم زکاۃ دوگی اور صدقہ کروگی تو اس سے تمہیں ثواب ہوگا اور غریبوں کو فائدہ ہوگا، نیز باقی کھجوریں سال بھر تمہارے کا آئیں گی؟ اس لیے گھر سے نکلنے کے لیے یہ معقول وجہ ہے۔
(4) چھوٹے موٹے کام کےلیے نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ کام ایسے نہیں جواس کےلیے انتہائی ضروری ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2034
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3721
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ ہارون بن عبداللہ کے ہیں، کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میری خالہ کو طلاق مل گئی، تو اس نے نخلستان سے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا۔ تو اسے ایک آدمی نے گھر سے نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اپنی کھجوریں توڑ، کیونکہ ہو سکتا ہے، تم صدقہ کرو یا کوئی اور نیکی کرو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3721]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عدت وفات میں آئمہ اربعہ اور اکثر علماء کے نزدیک عورت دن کے وقت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے اور عدت طلاق میں بھی آئمہ ثلاثہ مالک رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک عورت ضرورت کے تحت گھر سے نکل سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نہیں نکل سکتی کیونکہ قرآن مجید کا حکم ہے: ﴿وَلَا يَخْرُجْنَ﴾”وہ نہ نکلیں“ حالانکہ یہاں نکلنے سے مراد خاوند کےگھر سے چلے جانا ہے مزید برآں عدت وفات میں احناف نکلنے کی اجازت اس لیے دیتے ہیں کہ بیوی کا نان و نفقہ خاوند کے ذمہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ نفقہ کی تلاش میں دن کو نکل سکتی ہے۔ اسی طرح طلاق بائن کی صورت میں بھی نفقہ خاوند کے ذمہ نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور آئمہ ثلاثہ کا یہی موقف ہے۔