(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة ," ان رجلا من بني فزارة اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن امراتي ولدت غلاما اسود، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل لك من إبل، قال: نعم، قال: فما الوانها؟ قال: حمر، قال: فهل فيها من اورق؟ قال: إن فيها لورقا، قال: فانى ترى، اتى ذلك؟ قال: عسى ان يكون نزعه عرق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وهذا عسى ان يكون نزعه عرق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ," أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي فَزَارَةَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟ قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: فَأَنَّى تَرَى، أَتَى ذَلِكَ؟ قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بنی فرازہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ”کس رنگ کے ہیں؟“، اس نے کہا لال رنگ (کے ہیں)، آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے کہا: (جی ہاں) ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم کیا سمجھتے ہو یہ رنگ کہاں سے آیا؟“ اس نے کہا ہو سکتا ہے کسی رگ نے یہ رنگ کشید کیا ہو۔ آپ نے فرمایا: ”(یہی بات یہاں بھی سمجھو) ہو سکتا ہے کسی رگ نے اس رنگ کو کھینچا ہو“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: گویا اس شخص کو اپنی بیوی پر شک ہوا کہ بیٹے کا کالا رنگ کہیں اس کی بدکاری کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ ۲؎: یعنی تم گرچہ گورے سہی تمہارے آباء و اجداد میں کوئی کالے رنگ کا رہا ہو گا اور اس کا اثر تمہارے بیٹے میں آ گیا ہو گا۔
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى ترى ذلك جاءها قال يا رسول الله عرق نزعها قال ولعل هذا عرق نزعه ولم يرخص له في الانتفاء منه
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى أتاها ذلك قال عسى أن يكون نزعه عرق قال وهذا عسى أن يكون نزعه عرق
هل لك من إبل قال نعم قال ما ألوانها قال حمر قال فهل فيها من أورق قال نعم قال رسول الله فأنى هو قال لعله يا رسول الله يكون نزعه عرق له فقال له النبي وهذا لعله يكون نزعه عرق له
امرأتي ولدت غلاما أسود فقال النبي هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال فهل فيها أورق قال نعم إن فيها لورقا قال أنى أتاها ذلك قال لعل عرقا نزعها قال فهذا لعل عرقا نزعه
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال فهل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى ترى أتى ذلك قال عسى أن يكون نزعه عرق فقال رسول الله وهذا عسى أن يكون نزعه عرق
هل لك من إبل قال نعم قال ما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال فيها ذود ورق قال فما ذاك ترى قال لعله أن يكون نزعها عرق قال فلعل هذا أن يكون نزعه عرق قال فلم يرخص له في الانتفاء منه
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال فهل فيها جمل أورق قال فيها إبل ورق قال فأنى كان ذلك قال ما أدري يا رسول الله إلا أن يكون نزعه عرق قال وهذا لعله نزعه عرق فمن أجله قضى رسول الله هذا لا يجوز لرجل أن ينتفي من ولد ولد على ف
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3508
اردو حاشہ: اس آدمی کو بچے کے بارے میں شک تھا کہ کہیں ناجائز نہ ہو؟ مگرچونکہ اس نے صراحتاً نہ تو الزام لگایا نہ بچے کی نفی کی‘ لہٰذا لعان کی ضرورت نہ پڑی۔ البتہ اس نے اشکال پیش کیا کہ رنگ کے لحاظ سے یہ مجھ سے یکسر مختلف ہے۔ رسول اللہﷺ نے واضح مثال بیان فرما کر اشکال دور فرما دیا کہ کبھی کسی دور والے باپ‘ یعنی دادے وغیرہ سے بھی مشابہت ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے تیرا کوئی باپ دادا سیاہ رنگ کا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3508
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 944
´لعان کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالے رنگ کا بچہ جنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ”کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟“ تو اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”ان کے رنگ کیا ہیں؟“ اس نے کہا سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”وہ کہاں سے آ گیا؟“ وہ بولا کوئی رگ اسے کھینچ لائی ہو گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھر تیرے اس بیٹے کو بھی کوئی رگ کھینچ لائی ہو گی۔“(بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ وہ اس بچے کی نفی کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور اس روایت کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نفی کی رخصت و اجازت نہ دی۔ «بلوغ المرام/حدیث: 944»
تخریج: «أخرجه البخاري، الطلاق، باب إذا عرّض بنفي الولد، حديث:5305، ومسلم، اللعان، حديث:1500.»
تشریح: 1. کالے رنگ نے صحابی کو مغالطے اور اشتباہ میں مبتلا کر دیا کہ ہم میاں بیوی میں سے تو کوئی بھی سیاہ رنگ کا نہیں‘ پھر یہ بچہ اس رنگ کا کہاں سے پیدا ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس نے عندیہ اور مافی الضمیر ظاہر کیا تو آپ نے اسے ڈانٹ پلائی نہ اس کی بیوی کی صریح الفاظ میں صفائی پیش فرمائی‘ بلکہ عربوں کی ذہنی سطح پر اتر کر آپ نے سمجھایا اور اس کے مغالطے کی تصحیح کردی کہ سفید رنگ کے زوجین (میاں بیوی) کے ہاں سیاہ رنگ بچے کی پیدائش بچے کی ماں کی بدکاری و بدچلنی پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ خاندانی اثرات ہوتے ہیں جو کبھی بہت دور نسل میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس سے بچے کے نسب پر درحقیقت کوئی عیب اور نقص واقع نہیں ہوتا۔ 2. اس سے معلوم ہوا کہ سائل کو جواب حکمت سے اور اس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر دینا چاہیے۔ فلسفیانہ جواب کی بجائے عام روزمرہ کی مثالوں سے جواب دینا تفہیم مدعا کے لیے زیادہ مفید اور کارگر ہے۔ 3.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اسے صاحب علم سے دریافت کر لینا انسان کوبہت بڑے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 944
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3510
´مرد عورت پر بدکاری کا شبہ کرے اور بیٹے کے بارے میں شک کرے اور اس سے اپنی برأت کا ارادہ کرے تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کھڑا ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میرے یہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہاں سے آیا یہ اس کا کالا رنگ؟“، اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“، اس نے کہا: جی ہاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3510]
اردو حاشہ: (1) بچے میں کئی قسم کی مشابہتیں پائی جاسکتی ہیں‘ قریب کے کسی فرد کے ساتھ بھی‘ بعید کے فرد کے ساتھ بھی اور دوافراد کے ساتھ بھی‘ لہٰذا رنگ وروپ یا نین نقش کی بنا پر کسی بچے کو مشکوک قرار دے کر اس کی نفی نہیں کی جاسکتی جب تک زنا ہونے کا یقین نہ ہو۔ اگر وہ نفی کرے گا تو اسے لعان کرنا پڑے گا یا حد کا مستحق ہوگا۔ (2)”اس کے بستر پر“ یعنی اس کی بیوی یا لونڈی سے پیدا ہوا ہو۔ بیوی یا لونڈی کو استعارتاً بستر کہہ دیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3510
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2260
´جب بچے کے متعلق شک ہو تو کیا حکم ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے جواب دیا: ہاں، پوچھا: ”کون سے رنگ کے ہیں؟“ جواب دیا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کوئی خاکستری بھی ہے؟“ جواب دیا: ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”پھر یہ کہاں سے آ گیا؟“، بولا: شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بھی ہو سکتا ہے (تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2260]
فوائد ومسائل: 1۔ محض رنگ وروپ کی بناء پر اپنے بچے سے انکار کردینا حرام ہے۔ ہاں کوئی اور واضح دلیل ہو تو اور بات ہے۔ مثلاًشوہر کے غائب رہنے کی صورت میں حمل اور ولادت ہو یا بعد از نکاح چھ ماہ سے کم میں ولادت ہو وغیرہ۔ اس حدیث میں مذکور شخص کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا نام ضمضم بن قتادہ تھا۔ (کتاب الغوا مض عبد الغنی بن سعید) 2۔ قاضی مفتی اور داعی حضرات کو چاہیے کہ شرعی مسائل سے حسب ضرورت واقعاتی مثالوں سے واضح فرمایا کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2260
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2002
´آدمی کا اپنے لڑکے میں شک کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں“؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے رنگ کیا ہیں“؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے“؟ اس نے کہا: ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا“؟ اس نے کہا: کسی رگ نے یہ ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2002]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) باپ اور بیٹے کے رنگ میں فرق اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ بیٹا اپنے باپ کی جائز اولاد نہیں۔
(2) رگ کے زور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ودھیال یا ننھیال کے کسی بزرگ: مثلاً: دادی، دادا، نانی، نانا یا ان کے بزرگوں میں سے کسی کی مشابہت بچے میں آگئی ہے، یعنی ان کے خون کا اثر ہے۔
(3) اپنی بیوی پر اس طرح اشارے کنائے سے شک کا اظہار بیوی پر اس الزام میں شمار نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں لعان کی ضرورت پڑتی ہے۔ لعان اس وقت ہوتا ہے جب مرد صاف طور پراپنی بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کرے یا یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرے کہ یہ بچہ میرا نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2002
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2128
´باپ اپنے بچے کا انکار کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: ”وہ کس رنگ کے ہیں؟“ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے پوچھا: ”کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔ آپ نے پوچھا: ”وہ کہاں سے آیا؟“ اس نے کہا: شاید وہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایا ہو گا ۱؎، آپ نے فرمایا: ”اس لڑکے نے بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2128]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اس کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2128
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1115
1115- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بنوفزارہ سے تعلق رکھنے والا ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیوی نے سیاہ فام لڑکے کو جنم دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں“؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”ان کا رنگ کیا ہے“؟ اس نے عرض کی: سرخ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے“؟ اس نے عرض کی: ان میں ایک خاکستری بھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”وہ کہاں سے آگیا“؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1115]
فائدہ: اس حدیث میں ذکر ہے کہ اگر کبھی اولاد میں سے ایک کا رنگ دوسرے بچوں کے بالکل مخالف ہو تو پریشان نہیں ہونا چاہیے، اور گمان نہیں کرنا چاہے کہ یہ بچہ میرے نطفے سے نہیں ہے، بلکہ بعض دفعہ وہ بچہ اپنے خاندان کے پہلے گزرے ہوئے انسان کی مثل ہوتا ہے، اسی چیز کو رگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1113
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3766
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور الفاظ قتیبہ کے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کا ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، میری بیوی نے سیاہ بچہ جنا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کس رنگ کے ہیں؟“ اس نے کہا، سرخ رنگ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری (مٹیالا)... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3766]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اورق جمع ورق: خاکستری، مٹیالا۔ (2) عرق: جڑ، اصل، رگ، مقصود خاندانی نسبت ہے۔ فوائد ومسائل: بنو فزارہ کے فرد ضمضم بن قتادہ نے اپنی رنگت کا لحاظ کرتے ہوئے بیٹے کی سیاہ رنگت پر ناپسندیدگی اور تعجب کا اظہارکیا۔ اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ نے بات سمجھانے کے لیے ایک تشبیہ اور تمثیل پیش کی تھی کہ بات ذہن نشین ہو جائے یہ قیاس اصطلاحی نہیں ہے کہ اس کو دلیل قیاس بنایا جا سکے۔ لیکن بہر حال اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے، محض اختلاف رنگت سے بچے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس طرح بچے کی رنگت پر تعجب اور ناپسندیدگی کا اظہار الزام تراشی اور تہمت قرارنہیں دیا جائے گا۔ یا قذف میں تعریض واشارہ پر حد نہیں ہے تصریح کی صورت میں ہی قذف شمار ہوگا اور جمہور کا یہی موقف ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3766
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3768
حضرت ابو ہریرہ ” سے روایت ہے کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ فام بچہ جنا ہے، اور میں اسے انوکھا محسوس کرتا ہوں یا مجھے اس پر حیرت و تعجب ہے (میں اجنبیت اور بیگانگی محسوس کرتا ہوں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان کے رنگ کیسے ہیں؟“ اس نے جواب دیا، سرخ رنگ ہیں۔ آپ صلی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3768]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (اني انكره) میں اس کا انکار کرتا ہوں، معنی کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ تو صریح قذف ہے، حالانکہ آپ نے اس کو قذف قرارنہیں دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب فرشتوں کو دیکھا تو ﴿نَكِرَهُمْ﴾ ان کو اجنبی اور بیگانہ پایا اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو فرمایا: ﴿إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾”تم اجنبی اور بیگانہ لوگ ہو“
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3768
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5305
5305. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میرے ہاں ایک سیاہ فام بچہ پیدا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کے کیا رنگ ہیں؟“ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی سیاہی مائل بھی ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ سیاہی مائل اونٹ کیسے آ گیا؟“ اس نے کہا: شاید کسی رگ نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تیرے بیٹے کو کسی رگ نے کھینچ لیا ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5305]
حدیث حاشیہ: حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا کہ باپ کے بارے میں اشارہ بھی معتبر سمجھا جائے گا۔ تشریح: الفاظ حدیث فلعل ابنُكَ ھَذَا نَزَعَهُ سے نکلا کہ صرف لڑکے کی صورت یا رنگ کے اختلاف پر یہ کہنا درست نہیں کہ یہ لڑکا میرا نہیں ہے جب تک قوی دلیل سے حرام کا ری ثبوت نہ ہو۔ مثلاً آنکھوں سے اس کو زنا کراتے ہوئے دیکھا ہو یا جب خاوند نے جماع کیا ہو اس سے چھ مہینے کم میں لڑکا پیدا ہو، جب جماع کیا ہو اس سے چار برس بعد بچہ پیدا ہو۔ حدیث سے بھی یہی نکلا کہ اشارہ اور کنایہ میں قذف کرناموجب حد نہیں اور مالکیہ کے نزدیک اس میں بھی حد واجب ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5305
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6847
6847. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں“ اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہ کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے خیال کے مطابق کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6847]
حدیث حاشیہ: حکیموں نے لکھا ہے کہ رنگ کے اختلاف سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بچہ اس مرد کا نہیں ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات ماں باپ دونوں گورے ہوتے ہیں مگر لڑکا سانولا پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ماں حمل کی حالت میں کسی سانولے مرد کو یا کالی چیز کو دیکھتی رہتی ہے۔ اس کا رنگ بچہ کے رنگ پر اثر کرتا ہے۔ البتہ اعضاء میں مناسبت ماں باپ سے ضرور ہوتی ہے مگر وہ بھی ایسی مخلوط کہ جس کو قیافہ کا علم نہ ہو وہ نہیں سمجھ سکتا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ تعریض کے طور پر قذف کرنے میں حد نہیں پڑتی۔ امام شافعی اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہما کا یہی قول ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حد لگاتے۔ مرد نے اپنی عورت کے متعلق جو کہا یہی تعریف کی مثال ہے۔ اس نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکا حرام کا ہے مگر مطلب یہی ہے کہ وہ لڑکا میرے نطفے سے نہیں ہے کیوں کہ میں گورا ہوں میرا لڑکا تو میری طرح گورا ہی ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی حکمت بتائی اور اس مرد کی تشفی ہو گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6847
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5305
5305. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میرے ہاں ایک سیاہ فام بچہ پیدا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کے کیا رنگ ہیں؟“ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی سیاہی مائل بھی ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ سیاہی مائل اونٹ کیسے آ گیا؟“ اس نے کہا: شاید کسی رگ نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تیرے بیٹے کو کسی رگ نے کھینچ لیا ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5305]
حدیث حاشیہ: (1) جو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا اس نے دوٹوک الفاظ میں نومولود کی نفی نہیں کی بلکہ نفی کا اشارہ کیا تھا کہ میرا رنگ سفید ہے اور میرے ہاں بچہ سیاہ فام ہے، اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دے کر اسے مطمئن کر دیا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ کسی شکل و صورت یا رنگ کے اختلاف پر یہ کہنا درست نہیں کہ یہ میرا بیٹا نہیں جب تک حرام کاری کا واضح ثبوت نہ ہو، مثلاً: نکاح کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا تو انکار کیا جا سکتا ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اشارے اور کنائے سے حد قذف نہیں لگائی جا سکتی اور نہ یہ لعان کا باعث ہے جبکہ مالکی حضرات کے نزدیک اشارے اور کنائے سے حد قذف لگائی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري: 549/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5305
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6847
6847. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں“ اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہ کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے خیال کے مطابق کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6847]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں تعریض اور اشارہ اس طرح ہے کہ بچے کا کالا پیدا ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ماں نے ایسے شخص سے زنا کیا ہے جس کا رنگ کالا تھا کیونکہ میں سفید رنگ کا ہوں۔ یہ امر واضح ہے کہ تعریض کے ساتھ قذف، صریح قذف کے حکم میں نہیں، لہٰذا ایسا شخص قاذف نہیں ہوگا اور نہ ایسے شخص کی گواہی ہی مردود ہوگی کیونکہ حد قذف واضح تصریح سے واجب ہوتی ہے، تعریض یا اشارے میں حد قذف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، البتہ ایسے شخص کے لیے بھی ڈانٹ ڈپٹ ضروری ہے۔ تعریض اور تصریح میں فرق یہ ہے کہ دوران عدت میں عورت سے نکاح کی تعریض ہو سکتی ہے لیکن تصریح نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس قسم کا سوال تین طرح سے کیا جا سکتا ہے: ٭جس خاوند کا رنگ سفید ہو اور اس کی بیوی سیاہ رنگ کا بچہ جنم دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے زنا کیا ہے اور سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟پہلا سوال، محض سوال، دوسرا تعریض اور تیسرا تصریح قذف ہے۔ بہرحال اس قسم کی تعریض سے حد قذف نہیں لگتی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہے بصورت دیگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قذف لگاتے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6847
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7314
7314. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میری بیوی کے ہاں سیاہ لڑکا پیدا ہوا ہے۔ میں نے اس کا انکار کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے پوچھا: ”ان کے رنگ کیسےہیں؟“ ا س نے کہا وہ سرخ رنگ کے ہیں آپ نے فرمایا: ”ان کوئی بھورے رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں،ان میں بھورے رنگ کے بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تیرا کیا خیال ہے وہ رنگ کدھر سے آیا ہے؟“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ممکن ہے اس (بچے) کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔“ آپ ﷺ نے اسے بچے کے انکار کی اجازت نہیں دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7314]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو رنگ مختلف ہونے پر قیاس کیا ہے اور اس میں قیاس صحیح کی شرائط کا بھی پتاچلتا ہے کیونکہ اصل، یعنی اونٹوں کا رنگ مختلف ہونا واضح اور بین ہے۔ جس کااعرابی نے انکار نہیں کیا اور اس کی علت بھی نمایاں ہے جس کی خود اعرابی نے نشاندہی کی ہے۔ اس کا مقصود بھی اعرابی کو مطمئن کرنا تھا۔ اس کی فرع بچوں کی رنگت ہے اور حکم اس رنگت کا مختلف ہونا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن وحدیث سے حجیت قیاس پر متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7314