● صحيح البخاري | 4912 | عائشة بنت عبد الله | أشرب عسلا عند زينب بنت جحش فلن أعود له وقد حلفت لا تخبري بذلك أحدا |
● صحيح البخاري | 6691 | عائشة بنت عبد الله | شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك |
● صحيح البخاري | 5267 | عائشة بنت عبد الله | يمكث عند زينب بنت جحش ويشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أن أيتنا دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير أكلت مغافير فدخل على إحداهما فقالت له ذلك فقال لا بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له |
● صحيح مسلم | 3678 | عائشة بنت عبد الله | شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزل لم تحرم ما أحل الله لك إلى قوله إن تتوبا |
● سنن أبي داود | 3714 | عائشة بنت عبد الله | يمكث عند زينب بنت جحش فيشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحداهن فقالت له ذلك فقال بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي |
● سنن النسائى الصغرى | 3410 | عائشة بنت عبد الله | شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك |
● سنن النسائى الصغرى | 3826 | عائشة بنت عبد الله | شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن أعود له فنزلت يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله |
● سنن النسائى الصغرى | 3450 | عائشة بنت عبد الله | يمكث عند زينب ويشرب عندها عسلا فتواصيت وحفصة أيتنا ما دخل عليها النبي فلتقل إني أجد منك ريح مغافير فدخل على إحديهما فقالت ذلك له فقال بل شربت عسلا عند زينب وقال لن أعود له فنزل يأيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3410
´غیرت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے ہاں شہد پی رہے تھے، میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر ۱؎ کی بو آ رہی ہے، آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ آپ ان میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے یہی کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور اب آئندہ نہیں پیو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3410]
اردو حاشہ:
(1) ”ٹھہرتے تھے“ عصر کی نماز کے بعد رسول اللہﷺ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اپنی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھرو ں میں تشریف لے جایا کرتے تھے کہ انہیں کوئی تکلیف ہو یا ضرورت ہو تو معلوم ہوجائے‘ نیز ہر ایک سے روزانہ رابطہ رہے۔ حضرت زینبؓ کے پاس شہد پینے کی وجہ سے زیادہ دیر لگ جاتی تھی جسے آپ کی دوسری بیویوں (عائشہ اور حفصہؓ) نے محسوس فرمایا اور روکنے کی تدبیر کی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر انہوں نے تدبیر درست نہیں کی جس میں خلاف واقعہ بات کرنا پڑی۔ تبھی تو یہ حکم دیا گیا۔
(2) ”مغافیر“ یہ گوند سی ایک چیز ہے جو گگل جیسے درخت سے نکلتی ہے۔ ا س کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے مگر بوقبیح ہوتی ہے۔ کھانے والے کے منہ سے بعد میں بھی بو محسوس ہوتی ہے۔ اور آپ کو بدبو سے سخت نفرت تھی‘ لہٰذا آپ نے شہد نہ پینے کا فیصلہ فرما لیا۔ لیکن چونکہ ان ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے اس مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہد کا استعمال جاری رکھنے کاحکم فرمایا۔
(3) ”اگر تم توبہ کرو“ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن معصوم نہیں تھیں۔ ان سے یہ غلطی ہوئی‘ پھر انہوں نے توبہ کرلی اور حدیث شریف میں ہے [التّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كمَن لا ذَنْبَ له ] (صحیح الجامع الصغیر‘ حدیث: 3008) توبہ سے گناہ ختم ہوجاتا ہے‘ لہٰذا ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ توبہ کرلینا ان کی فضیلت ہے۔
(4) ”راز کی بات“ آپ نے فرمایا تھا: ”مں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا لیکن تم کسی سے ذکر نہ کرنا“ مگر حضرت حفصہ سے غلطی ہوگئی کہ انہوں نے یہ بات حضرت عائشہؓ سے ذکر کردی۔ اسی لیے انہیں توبہ کرنے کی تلقین کی گئی اور انہوں نے توبہ کرلی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3410
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3826
´اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پیتے تھے، میں نے اور حفصہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ (کے منہ) سے مغافیر ۱؎ کی بو محسوس ہو رہی ہے، آپ نے مغافیر کھائی ہے۔ آپ ان دونوں میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے آپ سے یہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3826]
اردو حاشہ:
کسی حلال چیز کو اپنے لیے حرام قرار دے لینا‘ نذر اور قسم کی طرح ہے۔ حلال کو حرام کرنا بھی صحیح نہیں‘ لہٰذا اس چیز کو استعمال کرنا ہوگا اور کفارہ دینا ہوگا۔ اگرچہ ظاہراً قسم یا نذر کے الفاظ نہ ہوں۔ (تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث: 3410)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3826
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3678
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے۔ تو میں نے اور حفصہ نے ایکا (اتفاق) کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں وہ کہے۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغافیر کی بو محسوس ہوتی ہے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3678]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مَغَافِيْر:
مَغْفُوْر کی جمع ہے۔
یہ عرفط نامی بوٹی کا ایک قسم کا پھول ہے جس سے بدبو پھوٹتی ہے۔
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چونکہ یہ بات معلوم تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد پیتے ہیں اور شہد کی مکھیاں علاقہ کی جڑی بوٹیوں سے رس چوس کر شہد تیار کرتی ہیں اور مدینہ کے علاقہ میں عرفط بوٹی تھی جس کے پھول سے بد بو پھوٹتی تھی اس لیے دونوں نے توریہ و تعریض سے کام لیتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تا کہ رس کی بد بو کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بو کو ناپسند فرماتے تھے،
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پینے کے لیے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں زیادہ قیام نہیں کریں گے،
اور ان کا یہی مقصود تھا،
اور آیت میں راز کی بات کہی اس لیے فرمایا گیا ہے کہ بخاری شریف میں ہے:
(قَدْ حَلَفْتُ)
(میں نے قسم اٹھائی ہے)
(وَلَا تُخْبِرِيْ بِذٰلِكَ اَحَداً)
(تم کسی کو اس کی خبر نہ دینا)
اور ایک اور روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کے دن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں حضرت ماریہ قبطیہ کو بلا لیا تھا کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے باپ کے گھر کچھ وقت کے لیے چلی گئی تھیں واپسی پر انھوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کیے ہوئے دیکھا تو اعتراض کیا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا اور فرمایا اس کی اطلاع کی دوسری بیوی کو نہ دینا لیکن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے درمیانی دیوار پر ہاتھ مار کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو متوجہ کر کے انہیں بتا دیا۔
اور اور ان دونوں واقعات کے بعد سورہ تحریم کی ابتدائی آیات کا نزول ہوا،
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کی بنیاد یہی دوسرا واقعہ ہے۔
کیونکہ قرآن مجید میں اس کو قسم قرار دیا گیا ہے:
﴿قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ﴾ (التحریم: 2) (اللہ تعالیٰ نے تم پر قسموں کو کھول ڈالنا لازم ٹھہرایا ہے)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3678
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4912
4912. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ حضرت زینب بنت حجش ؓ کے ہاں شہد پیتے اور ان کے پاس ٹھہرتے تھے، چنانچہ میں نے اور حضرت حفصہ ؓ نے باہمی اتفاق سے طے کر لیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے جس کے پاس بھی آئیں تو وہ کہے کہ آپ نے مغافیر کھائی ہے کیونکہ میں آپ سے مغافیر کی بو محسوس کرتی ہوں۔ (چنانچہ جب آپ تشریف لائے تو منصوبے کے مطابق یہی کہا گیا۔) آپ نے فرمایا: ”ایسا نہیں ہے، لیکن میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا تھا، اب نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم اٹھا لی ہے لیکن تم نے اس کا کسی سے ذکر نہیں کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4912]
حدیث حاشیہ:
اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
مغافیر ایک بو دار گوند ہےجو ایک درخت سےجھڑتا ہے۔
تشریح:
آنحضرت ﷺ بڑے لطیف مزاج اورنفاست پسند تھے آپ کو نفرت تھی کہ آپ کےجسم یا کپڑوں سے کسی قسم کی بری بو آئے ہمیشہ خوشبو کوپسند فرماتےتھے اورخوشبو کا استعمال رکھتے تھے۔
جدھر آپ گزرتے جاتے وہاں در و دیوار معطر ہو جاتے۔
حضرت عائشہ ؓ نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ حضرت زینب ؓ کے پاس جانا وہاں ٹھہرے رہنا کم کر دیں۔
اسی واقعہ پرآیت ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ (الترحیم: 1)
نازل ہوئیں اورقسموں کےتوڑنے اورکفارہ ادا کرنے کا حکم ہوا۔
اس واقعہ میں صداقت محمدی کی بڑی دلیل ہے، اگرخدا نخواستہ آپ اللہ کےسچے نہ ہوتے تو اس ذاتی واقعہ کو اس طرح اظہار میں نہ لاتے بلکہ پوشیدہ رکھ چھوڑتے، برخلاف اس کےاللہ پاک نے بذریعہ وحی اسے قرآن شریف میں نازل فرما دیا جوقیامت تک اس کمزوری کی نشان وہی کرتا رہےگا۔
اس میں ایمان والوں کے لیے بہت سے اسباق مضمر ہیں اللہ پاک سمجھنے اورغور و فکر کرنے کی توفیق عطا کرے، آمین۔
حضرت زینب بنت جحش ؓ امہات المؤمنین میں سے ہیں ان کی والدہ کا نام امیہ ہے۔
وہ عبدالمطلب کی بیٹی ہیں اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی ہیں۔
زید بن حارثہ کےنکاح میں تھیں جو آنحضرتﷺ کےآزاد کردہ غلام تھے پھر حضرت زید نے ان کو طلاق دے دی تھی۔
اس کےبعد 8ھ میں یہ حضرت رسول کریم ﷺ کےحرم میں داخل ہوئیں۔
حضرت زینب ؓ ازواج مطہرات میں آپ ﷺ کی وفات کے بعد سب پہلے انتقال کرنے والی ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ ان کی شان میں فرماتی ہیں حضرت زینب ؓسب سےزیادہ دیندار، سب سےبڑھ کر تقویٰ شعار، سب سےزیادہ سچ بولنے والی ہیں۔
20ھ میں بعمر 53ھ سال مدینہ میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ اور حضرت ام حبیبہ ؓ وغیرہ ان سے روایت حدیث کرتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4912
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5267
5267. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدہ زینب بنت حجش ؓ کے پاس ٹھہرتے اور ان کے ہاں شہد نوش کرتے تھے میں نے اور حفصہ ؓ نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی ﷺ تشریف لائیں وہ آپ سے کہے کہ میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی بات نہیں، میں نے زینب بنت حجش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔۔۔ اگر تم دونوں توبہ کرلو۔“ یہ خطاب سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ ؓ کو ہے۔ اور جب نبی نے کسی بیوی سے راز کی بات کی۔ ”تو اس سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: میں نے (مغافر نہیں بلکہ) شہد پیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5267]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں عورت کے حرام کرنے میں کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ انہوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کردیا کہ یہ آیت شہد کے حرام کر لینے میں اتری ہے نہ کہ عورت کے حرام کر لینے میں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑے میں سے کوئی بد بو آئے۔
آپ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ہمیشہ خوشبو میں معطر رہتے تھے۔
حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ صلاح اس لیے کی کہ آپ شہد پینا چھوڑ کر اس دن سے زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرنا چھوڑ دیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5267
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6691
6691. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سیدہ زینب حجش ؓ کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اور وہاں شہد نوش فرماتے تھے۔ میں نے اور سیدہ حفصہ ؓ نے پروگرام بنایا کہ جس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ جب آپ ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ سے یہی کہا۔ تو آپ نے فرمایا: (میں نے مغافیر) نہیں (کھایا) بلکہ زینب بنت جحش ؓ کے ہاں شہد نوش کیا ہے آئندہ میں شہد بھی نوش نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اے نبی! آپ ایسی چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟“ اس آیت کریمہ میں سے ﴿إن تَتُوبَا اِلَی اللہِ﴾ سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ ؓ کی طرف اشارہ ہے اور ﴿واِذاسرَّ النبُّی۔۔﴾ سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: ”نہیں بلکہ میں نے شہد نوش کیا ہے۔“ ایک روایت کے مطابق (آپ ﷺ نے فرمایا تھا):۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6691]
حدیث حاشیہ:
حفصہ بنت عمر ؓ کے خاوند اول حذافہ سہمی جنگ بدر کے بعد فوت ہو گئے تھے۔
3ھ میں ان کا نکاح ثانی رسول کریم ﷺ سے ہوا۔
بہت نیک خاتون تھیں۔
نماز روزہ کا بہت اہتمام کرنے والی 45ھ ماہ شعبان میں انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنها۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6691
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4912
4912. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ حضرت زینب بنت حجش ؓ کے ہاں شہد پیتے اور ان کے پاس ٹھہرتے تھے، چنانچہ میں نے اور حضرت حفصہ ؓ نے باہمی اتفاق سے طے کر لیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے جس کے پاس بھی آئیں تو وہ کہے کہ آپ نے مغافیر کھائی ہے کیونکہ میں آپ سے مغافیر کی بو محسوس کرتی ہوں۔ (چنانچہ جب آپ تشریف لائے تو منصوبے کے مطابق یہی کہا گیا۔) آپ نے فرمایا: ”ایسا نہیں ہے، لیکن میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا تھا، اب نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم اٹھا لی ہے لیکن تم نے اس کا کسی سے ذکر نہیں کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4912]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے لطیف مزاج اور نفاست پسند تھے۔
آپ کو یہ بات انتہائی ناپسند تھی کہ آپ کے جسم یا کپڑوں سے کوئی ناگوار بو آئے۔
آپ ہمیشہ خوشبو کو پسند کرتے اورخوشبو لگایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پروگرام اس لیے تشکیل دیا تھا تا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں جانا اور وہاں قیام کرنا کچھ کم کردیں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے شہد نہ کھانے کی قسم اٹھا لی، جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرمایا۔
2۔
چونکہ بیویوں کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز کوحرام کرلینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا وہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپ کی اس لغزش کو معاف کردیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4912
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5267
5267. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدہ زینب بنت حجش ؓ کے پاس ٹھہرتے اور ان کے ہاں شہد نوش کرتے تھے میں نے اور حفصہ ؓ نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی ﷺ تشریف لائیں وہ آپ سے کہے کہ میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی بات نہیں، میں نے زینب بنت حجش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔۔۔ اگر تم دونوں توبہ کرلو۔“ یہ خطاب سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ ؓ کو ہے۔ اور جب نبی نے کسی بیوی سے راز کی بات کی۔ ”تو اس سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: میں نے (مغافر نہیں بلکہ) شہد پیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5267]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو حضرات کہتے ہیں کہ بیوی کو خود پر حرام قرار دینے سے کچھ لازم نہیں آتا انھوں نے اسی آیت سے دلیل لی ہے۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ یہ آیت شہد کے حرام کرنے پر نازل ہوئی تھی،عورت کے حرام کرنے پر نہیں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً بہت نفاست پسند تھے۔
آپ کو بہت نفرت تھی کہ آپ کے بدن یا کپڑوں سے کسی قسم کی بو آئے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات خوشبو سے معطر رہتے تھے۔
شہد کو حرام کردینے کی بھی یہی وجہ تھی۔
چونکہ آپ نے قسم بھی اٹھائی تھی جیسا کہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے،(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4912)
اس لیے آپ کو قسم کا کفارہ دینے کے متعلق کہا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف یہ تھا کہ بیوی کو حرام کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا:
میں نے اپنی بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے تو انھوں نے فرمایا:
تو غلط کہتا ہے۔
وہ تجھ پر حرام نہیں ہوئی،پھر آپ نے سورۂ تحریم کی پہلی آیت پڑھی اور فرمایا کہ تجھے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔
(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3449)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5267
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6691
6691. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سیدہ زینب حجش ؓ کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اور وہاں شہد نوش فرماتے تھے۔ میں نے اور سیدہ حفصہ ؓ نے پروگرام بنایا کہ جس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ جب آپ ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ سے یہی کہا۔ تو آپ نے فرمایا: (میں نے مغافیر) نہیں (کھایا) بلکہ زینب بنت جحش ؓ کے ہاں شہد نوش کیا ہے آئندہ میں شہد بھی نوش نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اے نبی! آپ ایسی چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟“ اس آیت کریمہ میں سے ﴿إن تَتُوبَا اِلَی اللہِ﴾ سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ ؓ کی طرف اشارہ ہے اور ﴿واِذاسرَّ النبُّی۔۔﴾ سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: ”نہیں بلکہ میں نے شہد نوش کیا ہے۔“ ایک روایت کے مطابق (آپ ﷺ نے فرمایا تھا):۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6691]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ نذر معصیت یا لجاج کی مثال ہے، یعنی وہ نذر جس میں انسان کسی حلال چیز کو بطور نذر خود پر حرام کر لیتا ہے۔
ایسی نذر کے متعلق اہل کوفہ کا موقف ہے کہ قسم کا کفارہ دے کر ایسی نذر کا ختم کرنا ضروری ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ایسی نذر کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اسے ختم کر دیا جائے اور اگر قسم اٹھائی ہے تو اس کا کفارہ دے، بصورت دیگر کفارہ نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے حدیث کے آخر میں اس روایت کا حوالہ دیا ہے جس میں بصراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا ذکر ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ کتاب التفسیر، حدیث: 4912 میں ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6691