عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آ کر کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس (قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو)، میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے وہیں رہو۔
وضاحت: ۱؎: گویا «الحقی بأھلک» سے طلاق اس وقت واقع ہو گی جب اسے طلاق کی نیت سے کہا جائے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3452
اردو حاشہ: (1) حدیث: 3451 میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب اپنے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کررہے ہیں اور 3452 میں اپنے والد عبداللہ بن کعب سے۔ دونوں طرح صحیح ہے کیونکہ عبدالرحمن کا سماع ا پنے باپ عبداللہ بن کعب اور دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دونوں سے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدی الساری میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح روایت کو اس مذکورہ سند (3451) سے لائے ہیں۔ اس میں عبدالرحمن نے اپنے دادا سے سماع کی تصریح کی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الجھاد‘ حدیث: 2948) (2) صریح لفظ طلاق بولا جائے تو طلاق ہی مراد ہوگی‘ نیت ہو یا نہ مگر کچھ ایسے الفاظ ہیں جن سے طلاق مراد لی جا سکتی ہے اور کوئی اور معنیٰ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ ان الفاظ سے طلاق تب واقع ہوگی جب نیت طلاق کی ہو۔ ان کو کنایات طلاق کہتے ہیں۔ حدیث میں مذکورہ الفاظ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ چونکہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی‘ لہٰذا ان الفاظ (اپنے گھر چلی جا) سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3452