(مرفوع) اخبرنا عمران بن بكار بن راشد، قال: حدثنا ابو اليمان، قال: انبانا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة،" ان ابا حذيفة بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس، وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، تبنى سالما وانكحه ابنة اخيه هند بنت الوليد بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس وهو مولى لامراة من الانصار، كما تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيدا وكان من تبنى رجلا في الجاهلية دعاه الناس ابنه فورث من ميراثه حتى انزل الله عز وجل في ذلك:ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم سورة الاحزاب آية 5 , فمن لم يعلم له اب كان مولى واخا في الدين" , مختصر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَبَنَّى سَالِمًا وَأَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ ابْنَهُ فَوَرِثَ مِنْ مِيرَاثِهِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ:ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5 , فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ كَانَ مَوْلًى وَأَخًا فِي الدِّينِ" , مُخْتَصَرٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا بیٹا بنا لیا، اور ان کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس سے کر دی۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے لیا تھا، اور زمانہ جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ متبنی کرنے والے کو اس لڑکے کا باپ کہا کرتے تھے اور وہ لڑکا اس کی میراث پاتا تھا اور یہ دستور اس وقت تک چلتا رہا جب تک اللہ پاک نے یہ آیت: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم»”لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے، پھر اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں“(الاحزاب: ۵) نازل نہ کی، پس جس کا باپ معلوم نہ ہو وہ دینی بھائی اور دوست ہے، (یہ حدیث) مختصر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 15 (5088)، (تحفة الأشراف: 16467)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/النکاح 10 (2061)، موطا امام مالک/الرضاع 2 (12)، مسند احمد (6/201، 271)، سنن الدارمی/النکاح 52 (2303) (صحیح)»
تبنى رسول الله زيدا وكان من تبنى رجلا في الجاهلية دعاه الناس ابنه فورث من ميراثه حتى أنزل الله في ذلك ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3225
اردو حاشہ: شریعت اسلامیہ میں متبنیٰ (گودلیا ہوا، منہ بولا بیٹا یا لے پالک) نہ تو بیٹا ہوتا ہے نہ وارث۔ وہ اپنے اصلی باپ ہی کا بیٹا ہے اور اسی کا وارث۔ اسی طرح کسی کو غیر باپ کی طرف منسوب کرنا بھی منع اور حرام ہے۔ الا یہ کہ نسبت اجداد کی طرف ہو جس طرح غزوۂ حنین میں رسول اللہﷺ نے اپنے آپ کو ”ابن عبدالمطلب“ فرمایا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2862، وصحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 1776) کیونکہ وہ زیادہ مشہور تھے اور آپ کے والد جوانی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3225
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4000
4000. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوحذیفہ ؓ ان صحابہ كرام ؓ میں سے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے حضرت سالم ؓ کو اپنا لے پالک بنایا اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید سے اس کا نکاح کر دیا جبکہ وہ ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جسے لے پالک قرار دیا جاتا لوگ اسے اس (نقلی باپ) کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ اس (نقلی باپ) کا وارث بھی ہوتا تھا حتی کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری: ”منہ بولے بیٹوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی نسبت سے پکارو۔۔“ حضرت سہلہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔۔ اس کے بعد ایک طویل حدیث کا ذکر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4000]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ نے پوری حدیث نقل نہیں کی۔ ابوداود میں مزید ہے کہ سہلہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم تو سالم ؓ کو بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ اس سے پردہ نہ تھا۔ اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، ایسا کرتو سالم ؓ کو دودھ پلادے۔ اس نے پانچ بار دودھ پلایا، پھر سالم ؓ ان کا رضاعی بیٹا سمجھا گیا۔ حضرت عائشہ ؓ کا عمل اس حدیث پر تھا۔ مذکور ولید بن عتبہ جنگ بدر میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں سے مارا گیا تھا۔ ابو حذیفہ ؓ اسی کے بھائی تھے۔ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4000
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5088
5088. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن شمس ان صحابہ کرام ؓم میں سے تھی جنہوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے سیدنا سالم بن معقل ؓ کو لے پالک (منہ بولا بیٹا) بنایا، پھر ان کا نکاح اپنی بھتیجی سیدہ ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دیا۔ یہ ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اسی طرح نبی ﷺ نے سیدنا زید بن حارثہ ؓ کو اپنا لے پالک قرار دیا تھا۔ دور جاہلیت کا یہ دستور تھا اگر کوئی کسی کو لے پالک بناتا تو لوگ اسے رواثت میں حصہ دار بناتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی: ”انہیں ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کرکے پکارو۔“ اس آیت کے نزول کے بعد لوگ انہیں ان کے حقیقی باپ کی طرف سے منسوب کر کے پکارنے لگے، البتہ جس کے باپ کا علم نیں ہوتا اسے مولٰی اور دینی بھائی کہا جاتا۔ اس حکم کے بعد سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ سہلہ بنت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5088]
حدیث حاشیہ: ابوداؤد نے پوری حدیث نقل کی ہے اس میں یوں ہے سہلہ نے کہا آپ کیا حکم دیتے ہیں (کیا ہم سالم سے پردہ کریں) آپ نے فرمایا تو ایسا کر سالم کو دودھ پلا دے۔ اس نے پانچ بار اس کو دودھ پلایا، اب وہ اس کے رضاعی بیٹے کی طرح ہو گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس حدیث کے موافق جس سے پردہ نہ کرنا چاہتیں تو اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں سے کہتیں وہ اس کو دودھ پلا دیتیں گو وہ عمر میں بڑا جوان ہوتا لیکن بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے ایسی رضاعت کی وجہ سے بے پردہ ہونا نہ مانا جب تک بچپنے میں رضاعت نہ ہو۔ وہ کہتی تھیں شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجازت خاص سالم کے لئے ہی دی ہوگی اوروں کے لئے ایسا حکم نہیں ہے قسطلانی نے کہا یہ حکم سہلہ اور سالم کے لئے خاص تھا یا منسوخ ہے اس کی بحث إن شاءاللہ آگے آئے گی باب کی مطابقت اس طرح ہے کہ سالم غلام تھے مگر ابوحذیفہ نے اپنی بھتیجی کا جو شرفائے قریش میں سے تھیں۔ ان سے نکاح کر دیا تو معلوم ہوا کہ کفاءت میں صرف دین کا لحاظ کافی ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5088
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4000
4000. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوحذیفہ ؓ ان صحابہ كرام ؓ میں سے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے حضرت سالم ؓ کو اپنا لے پالک بنایا اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید سے اس کا نکاح کر دیا جبکہ وہ ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جسے لے پالک قرار دیا جاتا لوگ اسے اس (نقلی باپ) کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ اس (نقلی باپ) کا وارث بھی ہوتا تھا حتی کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری: ”منہ بولے بیٹوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی نسبت سے پکارو۔۔“ حضرت سہلہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔۔ اس کے بعد ایک طویل حدیث کا ذکر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4000]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حضرت ابو حذیفہ ؓ کے غزوہ بدر میں شریک ہونے کا ذکر ہے۔ 2۔ ان کا بھائی ولید بن عتبہ اس جنگ میں مارا گیا تھا لیکن حضرت ابو حذیفہ ؓ نے اسلام قبول کیا اور مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ ان کی زوجہ محترمہ سہلہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: سالم ؓ جوان ہو گئے ہیں اس بنا پر ان کے گھر رہنے سے حضرت ابو حذیفہ ؓ کے دل میں کچھ وسواس پیدا ہوتے ہیں تو رسول اللہ ﷺنے اسے دودھ پلانے کا حکم دیا تھا اس کی مکمل تفصیل کتاب النکاح حدیث 5088۔ کے تحت بیان ہوگی۔ ان کا پورا نام سہلہ ؓ بنت سہل ہے یہ وہ سہلہ نہیں جنھوں نے حضرت سالم ؓ کو آزاد کیا تھا کیونکہ وہ انصار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ ان کا تعلق قریش سے ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4000
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5088
5088. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن شمس ان صحابہ کرام ؓم میں سے تھی جنہوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے سیدنا سالم بن معقل ؓ کو لے پالک (منہ بولا بیٹا) بنایا، پھر ان کا نکاح اپنی بھتیجی سیدہ ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دیا۔ یہ ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اسی طرح نبی ﷺ نے سیدنا زید بن حارثہ ؓ کو اپنا لے پالک قرار دیا تھا۔ دور جاہلیت کا یہ دستور تھا اگر کوئی کسی کو لے پالک بناتا تو لوگ اسے رواثت میں حصہ دار بناتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی: ”انہیں ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کرکے پکارو۔“ اس آیت کے نزول کے بعد لوگ انہیں ان کے حقیقی باپ کی طرف سے منسوب کر کے پکارنے لگے، البتہ جس کے باپ کا علم نیں ہوتا اسے مولٰی اور دینی بھائی کہا جاتا۔ اس حکم کے بعد سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ سہلہ بنت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5088]
حدیث حاشیہ: (1) پوری حدیث اس طرح ہے کہ حضرت سہلہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! اب سالم بالغ ہو چکا ہے اور حضرت ابو حذیفہ کو اس کا گھر میں آنا جانا بہت گراں گزرتا ہے، اب آپ اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسے دودھ پلادو۔ “ چنانچہ اس نے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیا تو وہ اس کے رضاعی بیٹے کی طرح ہو گیا۔ (2) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت سالم رضی اللہ عنہ ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے مگر حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بھتیجی سے ان کا نکاح کر دیا جو شرفائے قریش میں سے تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم پلہ ہونے میں صرف دین کا لحاظ ہی کافی ہے، اگر اس کے ساتھ ساتھ خاندان اور نسب میں یکسانیت ہو تو بہتر لیکن خاندان اور برادری کو اولین حیثیت نہیں دینی چاہیے۔ جو لوگ دین کو چھوڑ کر صرف برادری ازم کا خیال رکھتے ہیں انھیں آئندہ بہت مشکلات، آزمائشوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اگرصرف دینداری کو پیش نظر رکھا اور خاندان کو ثانوی حیثیت دی تو إن شاء اللہ دین کی برکت سے یہ رشتہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5088