بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو) فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے لیے پیغام دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ چھوٹی ہے“، پھر علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو آپ نے ان کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب العمر تھے جب کہ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما کی عمر فاطمہ رضی الله عنہا کی بنسبت کہیں زیادہ تھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3223
اردو حاشہ: (1) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کا پیغام رسول اللہﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کرنے کے لیے تھا۔ (2)”چھوٹی ہے“ ویسے تو وہ بالغ تھیں، چھوٹی نہیں تھیں مگر حضرت ابوبکر او ر عمر رضی اللہ عنہ کی عمر کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھیں۔ اس وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر بیس اکیس سال تھی۔ جبکہ ابوبکر پچاس سال سے اوپر ہوچکے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ چالیس سال سے تجاوز فرما چکے تھے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً پچیس سال تھی۔ اور یہ عمر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے تقریباً برابر ہی تھی۔ نکاح میں مرد اور عورت کی عمر میں اتنا فرق کوئی زیادہ نہیں ہے۔ (3) سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا پچاس سال کی عمر میں حضرت عائشہؓ سے نکاح کرنا کیسے مناسب تھا جبکہ وہ بہت چھوٹی تھیں بلکہ نابالغ تھیں۔ تین سال بعد رخصتی کے وقت بالغ ہوئیں؟ جواب یہ ہے کہ کسی عظیم مقصد کی خاطر عمر کا یہ تفاوت قابل برداشت ہے۔ نبیﷺ دراصل خانوادۂ صدیق رضی اللہ عنہ سے خصوصی تعلق جوڑنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے آپ کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب ہونا تھا۔ اس تعلق کی بنا پر انہیں خصوصی تقدس حاصل ہوگیا۔ یہ صرف اتفاق نہیں کہ پہلے دو خلیفے آپ کے سسر اور بعد والے دو خلیفے آپ کے داماد تھے۔ اور بنو امیہ جنہوں نے تقریباً سو سال تک حکومت کی، رسول اللہﷺ کے سسرال تھے۔ اور بنوعباس تو خیر آپ کے نسبی رشتے دار تھے۔ مذکورہ خلفاء کی آپ سے مذکورہ نسبتوں نے ان کی حکومت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3223