(مرفوع) اخبرنا عيسى بن يونس، قال: حدثنا ضمرة، عن ابي زرعة السيباني، عن ابي سكينة رجل من المحررين، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لما امر النبي صلى الله عليه وسلم بحفر الخندق، عرضت لهم صخرة حالت بينهم وبين الحفر، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم واخذ المعول، ووضع رداءه ناحية الخندق وقال:" وتمت كلمت ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم سورة الانعام آية 115" , فندر ثلث الحجر، وسلمان الفارسي قائم ينظر، فبرق مع ضربة رسول الله صلى الله عليه وسلم برقة، ثم ضرب الثانية، وقال: وتمت كلمت ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم سورة الانعام آية 115 , فندر الثلث الآخر، فبرقت برقة، فرآها سلمان، ثم ضرب الثالثة، وقال: وتمت كلمت ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم سورة الانعام آية 115 , فندر الثلث الباقي , وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذ رداءه وجلس قال سلمان: يا رسول الله رايتك حين ضربت ما تضرب ضربة إلا كانت معها برقة، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا سلمان رايت ذلك؟ فقال: إي والذي بعثك بالحق يا رسول الله قال: فإني حين ضربت الضربة الاولى رفعت لي مدائن كسرى وما حولها ومدائن كثيرة، حتى رايتها بعيني، قال له: من حضره من اصحابه يا رسول الله ادع الله ان يفتحها علينا ويغنمنا ديارهم، ويخرب بايدينا بلادهم، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك، ثم ضربت الضربة الثانية، فرفعت لي مدائن قيصر وما حولها، حتى رايتها بعيني، قالوا: يا رسول الله ادع الله ان يفتحها علينا ويغنمنا ديارهم ويخرب بايدينا بلادهم فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك ثم ضربت الثالثة، فرفعت لي مدائن الحبشة وما حولها من القرى حتى رايتها بعيني، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عند ذلك دعوا الحبشة ما ودعوكم، واتركوا الترك ما تركوكم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي سُكَيْنَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُحَرَّرِينَ، عَنْ رَجُلٍ مَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَمَّا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ، عَرَضَتْ لَهُمْ صَخْرَةٌ حَالَتْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْحَفْرِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، وَوَضَعَ رِدَاءَهُ نَاحِيَةَ الْخَنْدَقِ وَقَالَ:" وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة الأنعام آية 115" , فَنَدَرَ ثُلُثُ الْحَجَرِ، وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَائِمٌ يَنْظُرُ، فَبَرَقَ مَعَ ضَرْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرْقَةٌ، ثُمَّ ضَرَبَ الثَّانِيَةَ، وَقَالَ: وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة الأنعام آية 115 , فَنَدَرَ الثُّلُثُ الْآخَرُ، فَبَرَقَتْ بَرْقَةٌ، فَرَآهَا سَلْمَانُ، ثُمَّ ضَرَبَ الثَّالِثَةَ، وَقَالَ: وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة الأنعام آية 115 , فَنَدَرَ الثُّلُثُ الْبَاقِي , وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ وَجَلَسَ قَالَ سَلْمَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُكَ حِينَ ضَرَبْتَ مَا تَضْرِبُ ضَرْبَةً إِلَّا كَانَتْ مَعَهَا بَرْقَةٌ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا سَلْمَانُ رَأَيْتَ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: إِي وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: فَإِنِّي حِينَ ضَرَبْتُ الضَّرْبَةَ الْأُولَى رُفِعَتْ لِي مَدَائِنُ كِسْرَى وَمَا حَوْلَهَا وَمَدَائِنُ كَثِيرَةٌ، حَتَّى رَأَيْتُهَا بِعَيْنَيَّ، قَالَ لَهُ: مَنْ حَضَرَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَفْتَحَهَا عَلَيْنَا وَيُغَنِّمَنَا دِيَارَهُمْ، وَيُخَرِّبَ بِأَيْدِينَا بِلَادَهُمْ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، ثُمَّ ضَرَبْتُ الضَّرْبَةَ الثَّانِيَةَ، فَرُفِعَتْ لِي مَدَائِنُ قَيْصَرَ وَمَا حَوْلَهَا، حَتَّى رَأَيْتُهَا بِعَيْنَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَفْتَحَهَا عَلَيْنَا وَيُغَنِّمَنَا دِيَارَهُمْ وَيُخَرِّبَ بِأَيْدِينَا بِلَادَهُمْ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ ثُمَّ ضَرَبْتُ الثَّالِثَةَ، فَرُفِعَتْ لِي مَدَائِنُ الْحَبَشَةِ وَمَا حَوْلَهَا مِنَ الْقُرَى حَتَّى رَأَيْتُهَا بِعَيْنَيَّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِكَ دَعُوا الْحَبَشَةَ مَا وَدَعُوكُمْ، وَاتْرُكُوا التُّرْكَ مَا تَرَكُوكُمْ".
ایک صحابی رسول رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خندق کھودنے کا حکم دیا تو ایک چٹان نمودار ہوئی جو ان کی کھدائی میں رکاوٹ بن گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، کدال پکڑی اپنی چادر خندق کے ایک کنارے رکھی، اور آیت «تمت كلمة ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم» پڑھ کر کدال چلائی تو ایک تہائی پتھر ٹوٹ کر گر گیا، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کدال چلائی، ایک چمک پیدا ہوئی پھر آپ نے آیت: «تمت كلمة ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم» پڑھ کر دوبارہ کدال چلائی تو دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا پھر دوبارہ چمک پیدا ہوئی، سلمان نے پھر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے آیت: «تمت كلمة ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم» پڑھ کر تیسری ضرب لگائی تو باقی تیسرا تہائی حصہ بھی الگ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے نکل آئے، اپنی چادر لی اور تشریف فرما ہوئے، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب آپ نے ضرب لگائی تو میں نے آپ کو دیکھا، جب بھی آپ نے ضرب لگائی آپ کی ضرب کے ساتھ ایک چمک پیدا ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: سلمان! تم نے یہ دیکھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول جی ہاں! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا (میں نے ایسا ہی دیکھا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو مجھے (پردے اٹھا کر) فارس کے شہر اور اس کے اطراف کے دیہات اور دوسرے بہت سے شہر دکھائے گئے میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے خود دیکھا“، اس وقت آپ کے جو صحابہ وہاں موجود تھے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیں فتح نصیب فرمائے اور ان کا ملک ہمیں بطور غنیمت عطا کرے، اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں ویران و برباد کرے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعا فرما دی، پھر جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو پردے اٹھا کر مجھے قیصر کے شہر اور اس کے اطراف (کے قصبات و دیہات) دکھائے گئے (کہ یہ سب تمہیں ملنے والے ہیں) میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ ان ممالک کو فتح کرنے میں وہ ہماری مدد فرمائے اور وہ علاقے ہمیں غنیمت میں ملیں اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں تباہ و برباد ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا فرمائی، پھر جب میں نے تیسری ضرب لگائی، تو مجھے ملک حبشہ کے شہر اور گاؤں دکھائے گئے، میں نے فی الحقیقت انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس موقع پر آپ نے یوں فرمایا: ”حبشہ کو چھوڑ دو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں اور ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں چھوڑے رہیں“(لیکن اگر وہ تم سے ٹکرائیں تو تم بھی ان سے ٹکراؤ اور انہیں شکست دو)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3178
اردو حاشہ: (1)”ایک صحابی“ معلوم یوں ہوتا ہے کہ وہ صحابی حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ واللہ اعلم۔ (2) تینوں ضربیں لگاتے وقت مندرجہ بالا آیت پڑھنے کا مقصید یہ ہے کہ دین اسلام کا غلبہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے اور یہ ہوکررہے گا۔ کوئی اسے بدل نہیں سکے گا۔ (3)”چمک“ بسا اوقات سخت ضرب کی وجہ سے چنگاریاں اڑتی ہیں۔ ظاہر ہے یہاں چمک سے یہ چنگاریاں مرا دنہیں کیونکہ نبیﷺ نے تعجب فرمایا کہ سلمان رضی اللہ عنہ کو وہ چمک کیسے نظر آگئی‘ جب کہ چنگاریاں ہر موجود شخص کو نظر آتی ہے۔ یہ کوئی غیبی چیز تھی جو رسول اللہﷺ کو دکھلائی گئی۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو وہ چمک تو نظر آئی مگر اس چمک کا مقصود معلوم نہ ہوا کیونکہ مقصود آپ کے لیے تھا۔ فوائدومسائل: (4)”کسریٰ“ ایران کے بادشاہ کو خسرو کہتے تھے۔ عربوں نے اسے کسریٰ بنالیا۔ (5)”قیصر“ رومیوں کے بادشاہ کا لقب تھا۔ (6)”حبشہ“ اس ملک پر آپ نے حملہ کرنے سے روکا‘ اس کی ایک وجہ بظاہر یہ ہوسکتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو ابتدائی مشکل دور میں پناہ مہیا کی تھی۔ اور اس ملک کا بادشاہ سب سے پہلے مسلمان ہوا۔ دوسری وجہ شاحین یہ بیان کی ہے کہ یہ علاقہ بہت دوردراز کا تھا‘ درمیان میں دشوار گزار کا جنگلات اور پہاڑ تھے‘ علاوہ ازیں سمندر میں بھی حائل تھے۔ اسی طرح ترکوں کا معاملہ تھا‘ یہ علاقہ ٹھنڈا تھا‘ جب کہ عرب گرم ملک ہے۔ ان دونوں علاقوں میںجا کر لڑنا مسلمانوں کے لیے شدید مشکلات کا باعث تھا‘ اس لیے نبیﷺ نے ان دونوں علاقوں میں جا کرلڑنے سے منع فرمادیا‘ تاہم اس ممانعت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ضرورت داعی ہو تب بھی ان سے نہ لڑا جائے‘ نہ مسلمانوں ہی نے یہ مطلب لیا کیونکہ اس کا مطلب اگر یہ ہوتا تو خود نبیﷺ اولین غازیانِ قسطنطنیہ کے لیے بشارت سناتے نہ مسلمان ہی کبھی اُدھر کا رُخ کرتے۔ (7) چمک میں کسریٰ وقیصر کے شہر اور دیگرشہر دکھائے جانے کا مطلب ان علاقوں کی فتح ہے۔ اور واقعتا ایسے ہی ہوا۔ اور یہ رسول اللہﷺ کا معجزہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3178