(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، عن ابن عباس، قال:" كنت فيمن قدم النبي صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة في ضعفة اهله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كُنْتُ فِيمَنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ فِي ضَعَفَةِ أَهْلِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کے ان کمزور لوگوں میں سے تھا جنہیں آپ نے مزدلفہ کی رات پہلے ہی (منیٰ) بھیج دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 49 (1293)، سنن ابن ماجہ/المناسک 62 (3026)، (تحفة الأشراف: 5944)، مسند احمد (1/22، 227، ویأتي عند المؤلف برقم: 3051) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3036
اردو حاشہ: (1) صاحب ذخیرۃ العقبیٰ لکھتے ہیں کہ اکثر نسخوں میں ترجمۃ الباب ایسے ہی ہے لیکن یہ درست نہیں، صحیح ترجمۃ الباب یہ ہے: [تَقْدِیْمُ النِّسَائِ وَالصِّبِیَانِ اِلٰی مِنٰی مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ] امام نسائی رحمہ اللہ کی سنن کبریٰ میں اس طرح ہے۔ اس کا مفہوم درج ذیل ہے: ”مزدلفہ سے منیٰ کی طرف عورتوں اور بچوں کو روانہ کر دینا۔“ ملاحظہ فرمائیے: (شرح النسائي للإتیوبي: 25/ 391) (2) مزدلفہ سے منیٰ کو روانگی صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ ذکر اذکار کر کے سورج طلوع ہونے سے کچھ قبل ہونی چاہیے مگر ضعیف عورتیں اور بچے چونکہ رش میں تکلیف محسوس کریں گے، اس لیے انھیں طلوع فجر سے پہلے آدھی رات کے بعد کسی وقت بھی بھیجا جا سکتا ہے مگر وہ رمی سورج طلوع ہونے کے بعد ہی کریں گے، البتہ باقی لوگوں سے پہلے کر لیں گے۔ (3) دین کے معاملات میں ہر ایک کو اس کی بساط کے مطابق مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ دینی اعمال سے مقصود لوگوں کو مشقت وتکلیف میں مبتلا کرنا نہیں بلکہ اطاعت وفرمانبرداری ہے۔ اور وہ ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق بجا لائے گا۔ شریعت نے معذورین کے اعذار کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ شریعت محمدیہ کا امتیاز ہے۔ وللہ الحمد
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3036
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1939
´مزدلفہ سے منیٰ جلدی واپس لوٹ جانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے لوگوں میں سے کمزور جان کر مزدلفہ کی رات کو پہلے بھیج دیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1939]
1939. اردو حاشیہ: خواتین بچے مریض بوڑھے اور کمزور افراد کے لیے رخصت ہے کہ وہ مزدلفہ سے فجر کی نماز سے پہلے ہی منی کو روانہ ہو جائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1939
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1941
´مزدلفہ سے منیٰ جلدی واپس لوٹ جانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کمزور اور ضعیف لوگوں کو اندھیرے ہی میں منیٰ روانہ کر دیتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب نہ نکل آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1941]
1941. اردو حاشیہ: دسویں تاریخ کو رمی جمرہ کامسنون وقت سورج طلوع ہونے کے بعد ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1941
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 620
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافروں کے سامان کے ساتھ (یا فرمایا) کہ کمزوروں کے ساتھ رات ہی کو مزدلفہ سے (منیٰ کی جانب) بھیج دیا تھا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 620]
620 لغوی تشریح: «في الثقل» «الثقل» کی ”ثا“ اور ”قاف“ دونوں پر فتحہ ہے۔ سامان مسافر۔ «الضعفة»”ضاد“، عین اور ”فا“، پر فتحہ ہے۔ ضعیف کی جمع ہے۔ اس سے مراد خواتین، بچے اور خادم وغیرہ ہیں۔ «من جمع» مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جانے کے لیے۔ «بليل» رات کے وقت۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کمزور حضرات کے لئے مزدلفہ میں پوری رات گزارے بغیر ہی منیٰ کی جانب روانگی کی رخصت ہے اور باقی لوگوں کے لئے مزدلفہ سے نماز فجر سے پہلے واپس روانہ ہونا جائز نہیں۔ ➋ طیبی کی رائے یہ ہے کہ کمزور ضعیف حضرات کو ہجوم کی زحمت اور تکلیف سے بچنے کی غرض سے پہلے بھیج دینا مستحب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 620
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3051
´کمزور اور ضعیف لوگوں کو قربانی کے دن نماز فجر منیٰ میں پڑھنے کی رخصت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کے ساتھ (رات ہی میں) بھیج دیا تو ہم نے نماز فجر منیٰ میں پڑھی، اور جمرہ کی رمی کی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3051]
اردو حاشہ: اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ صبح کی نماز مزدلفہ میں پڑھنا یا بعد میں وقوف کرنا حج کے ارکان میں شامل نہیں۔ اس کے بغیر بھی حج ہو سکتا ہے ورنہ رسول اللہﷺ عورتوں کو رات کے وقت منیٰ جانے کی اجازت نہ دیتے۔ لیکن یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ یہ رخصت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ذکر ہے حدیث میں ہو چکا ہے، لہٰذا اس حدیث میں مزدلفہ میں نماز فجر ادا کرنے کی عدم رکنیت کی دلیل پکڑنا درست نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے نماز میں قیام رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ضعیف شخص جو اس کا متحمل نہیں وہ اس رکن سے مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح مزدلفہ میں نماز فجر کی ادائیگی کا مسئلہ ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3051
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:468
468- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کمزور افراد کے ہمراہ مزدلفہ سے منیٰ جلدی روانہ کردیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:468]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کمزور و ناتواں لوگ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پہلے، رات ہی کے وقت جا سکتے ہیں، ہر معاملے میں کمزور لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 468
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:470
470- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب سے تعلق رکھنے والے کم سن لڑکوں کو مزدلفہ سے منیٰ (لوگوں سے) پہلے روانہ کردیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے زانوں پر نرمی سے ہاتھ مارتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے میرے چھوٹے بچوں! تم لوگ جمرہ، عقبیٰ کی رمی اس وقت تک نہ کرنا جب تک سورج نہ نکل آئے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:470]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استاذ چھوٹے لڑکوں کو بیٹا کہہ سکتا ہے، جمرات کو جمرات ہی بولنا چاہیے، کچھ لوگ ان کو شیطان کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، سورج طلوع ہونے کے بعد جمرات کو کنکریاں مارنی چاہئیں کسی پڑھے لکھے عالم کو حج میں اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 470