ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ مسواک کر رہے تھے اور مسواک کا سرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر تھا، اور آپ: «عأعأ» کی آواز نکال رہے تھے ۱؎۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 3
3۔ اردو حاشیہ: ➊ مسواک کا مقصد منہ کی صفائی ہے، لہٰذا مسواک اس انداز سے کی جائے کہ نہ صرف دانتوں کی صفائی ہو، بلکہ زبان اور حلق بھی ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہو جائیں۔ ➋ مسواک کرتے وقت اگرچہ چہرہ متغیر ہونے کا امکان ہوتا ہے، مگر اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے اور نہ اسے خلاف مروت اور اپنی شخصیت کے خلاف ہی سمجھنا چاہیے بلکہ بلا جھجک ہر کسی کے سامنے مسواک کی جا سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 49
´مسواک کیسے کرے؟` «. . . وَقَدْ وَضَعَ السِّوَاكَ عَلَى طَرَفِ لِسَانِهِ وَهُوَ يَقُولُ: آهْ آهْ يَعْنِي يَتَهَوَّعُ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، اور مسواک کو اپنی زبان کے کنارے پر رکھ کر فرماتے تھے ”اخ اخ“ جیسے آپ قے کر رہے ہوں . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 49]
فوائد و مسائل: اس میں بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرنے میں مبالغے سے کام لیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دانت ہی نہیں بلکہ اپنی زبان، حلق کے قریب تک مسواک سے صاف کیا کرتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 49
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 244
´مسواک کرنے کا بیان` «. . . عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ يَسْتَنُّ بِسِوَاكٍ بِيَدِهِ، يَقُولُ: أُعْ أُعْ، وَالسِّوَاكُ فِي فِيهِ كَأَنَّه يَتَهَوَّعُ " . . . .» ”. . . ابوبردہ سے وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے مسواک کرتے ہوئے پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اع اع کی آواز نکل رہی تھی اور مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں تھی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قے کر رہے ہوں۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ السِّوَاكِ:: 244]
� تشریح: اگر حلق کے اندر سے مسواک کی جائے تو اس قسم کی آواز نکلا کرتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت یہی کیفیت تھی۔ مسواک کرنے میں مبالغہ کرنا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 244
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 244
244. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے ہاتھ مبارک سے مسواک کر رہے تھے۔ مسواک آپ کے منہ میں تھی اور آپ اع، اع کی آواز نکال رہے تھے، گویا آپ قے کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:244]
حدیث حاشیہ: اگرحلق کے اندر سے مسواک کی جائے تو اس قسم کی آواز نکلا کرتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اس وقت یہی کیفیت تھی۔ مسواک کرنے میں مبالغہ کرنا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 244
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 244
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت و رحمت` «. . . عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ يَسْتَنُّ بِسِوَاكٍ بِيَدِهِ، يَقُولُ: أُعْ أُعْ، وَالسِّوَاكُ فِي فِيهِ كَأَنَّه يَتَهَوَّعُ . . .» ”. . . ابوبردہ سے وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے مسواک کرتے ہوئے پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اع اع کی آواز نکل رہی تھی اور مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں تھی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قے کر رہے ہوں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ السِّوَاكِ: 244]
تخريج الحديث: [143۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 73 باب السواك 244، مسلم 254، أبوداود 49، نسائي 3] اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت و رحمت کا پتہ چلتا ہے کہ جس کام سے امت مشقت میں پڑ سکتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم ہی نہیں فرمایا۔ علاوہ ازیں یہ حدیث دلیل ہے کہ مسواک کرنا واجب نہیں۔ البتہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ضرور ہے جسے اپنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔ [صحيح: صحيح الترغيب 209، ارواء الغليل 66، أحمد 124/6، حميدي 162] اور جیس روایت میں ہے کہ مسواک کے ساتھ نماز عام نماز سے ستر گناہ افضل ہے، اس اہل علم نے ضعیف کہا ہے۔ [ضعيف: احمد 272/6، ابويعلي 4738] ◈ شیخ عبدالرزاق مہدی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [التعليق على شرح فتح القدير 23/1] ◈ شیخ شعیب ارناؤط نے کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند منقطع ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ حدیث امام زہری سے نہیں سنی۔ [مسند أحمد محقق 26340] ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے یں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: اس روایت کی کوئی سند بھی صحیح نہیں اور یہ روایت باطل ہے۔ [تلخيص الحبير 68/1]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 143
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:244
244. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے ہاتھ مبارک سے مسواک کر رہے تھے۔ مسواک آپ کے منہ میں تھی اور آپ اع، اع کی آواز نکال رہے تھے، گویا آپ قے کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:244]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے مسواک کو وضو کی سنت ثابت کرنے کے لیے کتاب الوضوء میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے، کیونکہ مسواک متعلقات وضو سے ہے، اسے کتاب الصلاۃ میں بھی لائیں گے تاکہ اس کے سنت صلاۃ ہونے کو بھی واضح کیا جائے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مجھے لوگوں پرگرانی کا اندیشہ نہ ہوتاتو ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کو ضروری قراردے دیتا۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 887) اسی طرح وضو کے متعلق بھی ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ اگر مجھے امت پرگرانی کا خطرہ نہ ہوتاتو میں ہروضو کے ساتھ مسواک کو لازم قراردے دیتا۔ (مسند احمد: 250/2) مسواک کرتے وقت منہ سے اُع اُع کی آواز کا پیدا ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ مسواک زبان پر پھیری جاتی تھی، کیونکہ جب زبان پر بلغم وغیرہ جم جاتی ہے تو قراءت کے وقت تکلف ہوتا ہے، اس لیے زبان کو صاف کرنے کے لیے مسواک کا عمل رکھاگیا ہے۔ 2۔ مسواک کے مستحب اوقات حسب ذیل ہیں: * وضو کے ساتھ۔ * نماز کے وقت۔ * تلاوت قرآن کے لیے۔ * سونے سے پہلے۔ * نیند سے بیدار ہوکر۔ * جمعے کے دن* کھانے کے وقت۔ * منہ میں کسی وجہ سے بوپیداہونے کی صورت میں۔ واضح رہے کہ منہ میں کئی ایک وجوہات کی بنا پر بو پیدا ہوجاتی ہے. چند ایک حسب ذیل ہیں: * کھانے پینے کاترک۔ * بووالی چیزتناول کرنا۔ * مسلسل سکوت۔ * کثرت کلام۔ مزید برآں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھرتشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 590(253) 3۔ مسواک کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے رب کبریا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ منہ کی پاکیزگی اور صفائی کا ذریعہ ہے، اس سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں، قوت حافظہ کو بڑھاتی اورترقی دیتی ہے، نظر کوتیز کرتی اور اس کی روشنی کو بڑھاتی ہے، فاضل رطوبتوں کا ازالہ اوراخراج کرتی ہے، معدے کے نظام کو درست رکھتی ہے۔ پابندی سے مسواک کرنے والا درد دنداں سے محفوظ رہتا ہے۔ ان کے علاوہ بے شمار فوائد ہیں جن کا طب جدید نے بھی اعتراف کیا ہے۔ 4۔ حضرت حذیفہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کونیند سے بیدار ہوتے تو مسواک سے منہ صاف کرتے تھے، یعنی سونے کی وجہ سے جو بخارات معدے سے چڑھ کے زبان پر جم جاتے ہیں، ان سے بھی قراءت متاثر ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے ازالے کے لیے مسواک کا عمل کرتے تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زبان پر طول کے بل مسواک کرنا مشروع ہے جبکہ دانتوں پر عرض کے بل کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 463/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 244