فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2967
اردو حاشہ: (1) زم زم مبارک پانی ہے جو دنیا کے ہر پانی سے مختلف ہے۔ خوراک کا فائدہ بھی دیتا ہے اور شفا کا بھی، بلکہ جس نیت کے ساتھ جس مقصد کے لیے بھی پیا جائے، کفایت کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجه، المناسك، حدیث: 3062، ومسند أحمد: 3/ 357، 372) لہٰذا اسے تبرک سمجھ کر پینا مسنون ہے، بلکہ واپس آتے ہوئے گھروں کو لانا بھی مسنون ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مرفوعاً منقول ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الحج، حدیث: 963)۔ (2) بعض کا قول ہے کہ آپ کا کھڑے ہو کر پانی پینا تو مجبوراً تھا کہ نیچے کیچڑ تھا، بیٹھنا ممکن نہیں تھا ورنہ کپڑے خراب ہوتے، لہٰذا اگر ایسی صورت حال ہو کہ بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ ہو تو کھڑے ہو کر کھایا پیا جا سکتا ہے۔ بعض کا موقف ہے کہ کھڑے ہو کر پینا جائز ہے اور آپ کا مذکورہ عمل بیانِ جواز کے لیے تھا، اس کے علاوہ دیگر احادیث میں کھڑے ہو کر پینے سے آپ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ تو حافظ ابن حجر اور دیگر ائمہ کے نزدیک ان احادیث میں مذکور نہی تنزیہ کے لیے ہے، یعنی بہتر یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پانی نہ پیا جائے۔ اور اگر پی بھی لیا جائے تو اس میں مطلقاً حرج والی بات نہیں ہے۔ یہی موقف دلائل کی رو سے مضبوط معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (فتح الباري: 10/ 104، 105)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2967
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2968
´زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم (کا پانی) پلایا، تو آپ نے اسے پیا اور آپ کھڑے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2968]
اردو حاشہ: حدیث بالا سے ثابت ہوا کہ زم زم کا پانی کھڑے ہو کر بھی پی لیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ اباحت والی احادیث اس پر دلالت کناں ہیں، لیکن اسے اس معنیٰ میں سنت قرار دینا کہ یہ مستحب ہے تو یہ اس سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ مذکورہ باب میں تفصیل گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2968
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3422
´کھڑے ہو کر پینے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا، تو آپ نے کھڑے کھڑے پیا ۱؎۔ شعبی کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث عکرمہ سے بیان کی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3422]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: عکرمہ نے اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا ایسے معاملات میں اثبات کی خبر کو نفی کی خبر پر ترجیح دی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3422
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1882
´کھڑے ہو کر پینے کی رخصت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر زمزم کا پانی پیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1882]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ممکن ہے ایسا نبی اکرم ﷺ نے بیان جواز کے لیے کیا ہو، اس کا بھی امکان ہے کہ بھیڑبھاڑ کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی ہو، یا وہاں خشک جگہ نہ رہی ہو، اس لیے آپ نہ بیٹھے ہوں، یہ عام خیال بالکل غلط ہے کہ زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا سنت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1882
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:487
487- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت آب زم زم کا ڈول نکالا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہوکر پیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:487]
فائدہ: ۔۔۔ سوال: آب زم زم کھڑے ہوکر پینے کے تعلق سے یہ سوال ہے کہ کیا یہ جائز ہے؟ جواب۔۔۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: دیکھیں آب زم زم کے بارے میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پی رہے تھے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور ہم نے بھی ابھی ذکر کیا تھا۔ تو اسے سنت لازمہ بنا دیا کہ کھڑے ہوکر آب زم زم پیا جائے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ کھڑے ہوکر پیا تھا اس کی وجہ لوگوں کا رش اور بھیڑ تھی۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی سیرت پڑھے گا پھر خصوصی طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ چلتے تھے تو اس پر یہ بات مکمل روشن و واضح ہو جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طور پر اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بالکل نہیں رکھتے تھے، پس آپ آخری دور کے امراء کی طرح نہیں تھے کہ ان کے لیے راستے خالی کرواد یے جاتے ہیں بلکہ ابھی تو ان کے لیے پوری مسجد الحرام تک خالی کروا دی جاتی ہے۔ کعبۃ اللہ تو دور کی بات رہی اور آخر تک جو کچھ ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وصفات میں سے یہ نہ تھا۔ بلکہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا عبداللہ بن قدامہ العامری رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقع پر چلے جارہے تھے اور: «ولا طرد ولا إليك إليك»(نہ لوگوں کو دھکیلا جارہا تھا، نہ راستے سے ایک طرف ہو جانے کو کہا: جارہا تھا)۔ یعنی ان سب کے ساتھ ہی چلے جارہے تھے۔ کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے راستے صاف کرو، بالکل نہیں۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے اور آب زم زم میں سے پینا چاہا تو کیا طلب کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ اگر ہم اپنے آپ پر انھیں قیاس کریں کہ آب زم زم پینے کے لیے طلب کر رہے ہوں، تو یہ طلب کریں گے کہ ان کے لیے تازہ پانی کا ڈول نکالا جائے، لیکن نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہیں سے دے دو جہاں سے دیگر مسلمان پی رہے ہیں یعنی اس مشکیزے سے۔ لہٰذا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بیٹھ کر پینا چاہتے تو رش کی شدت کے باعث بھیڑ تلے کچلے جانے تک کا خطرہ تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق میں سے نا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعینات فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں چمٹ کر لوگوں کو کہتے رہیں راستہ دو راستہ دو۔ بالکل نہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔ اس طرح بعض دوسری احادیث میں جو سنن الترمذی میں ہیں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مشکیزے کے پاس آئے جو لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے اس کا بند کھولا اور کھڑے ہو کر ہی اس میں سے پیا، کیونکہ وہ او پر لٹکا ہوا تھا، اور یہاں کھڑے ہوکر پینا اصل مقصود نہ تھا، بلکہ آپ تو مجبور تھے۔ چنانچہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ اس قسم کے جزئی واقعات و حادثات کا ہم قواعد کلیہ سے ٹکراؤ کریں۔ آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا، بلکہ زجر بھی فرمایا (ڈانٹا بھی) اور قے تک کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی طرح سے ہونا چاہئے اس شخص کو جو رب العالمین کی طرف س بھیجے گئے دین تققہ چاہئے (یعنی وہ دلائل کو جمع کرتا اور اصول پر چلتا ہے)۔ ① صحيح بخاری 1637 میں سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «سـقيـتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم، فشرب وهو قائم»(میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آب زم زم پلایا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہونے کی حالت میں پیا)۔ امام مسلم رحمہ اللہ صحيح مسلم میں «باب فى الشرب من زمزم قائما»(باب: آب زم زم میں سے کھڑے ہوکر پینے کے بارے میں) کے تحت چار روایات لائے ہیں۔ ② اسے امام الترمذی نے 903 میں روایت فرمایا، اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔ ③ دیکھیں صحیح مسلم میں «باب كراهية الشرب قائما»(باب: کھڑے ہوکر پینے کی کراہیت کے بارے میں)، جبکہ جو علماء جواز کے قائل ہیں اس کے لیے پڑھیں صحیح بخاری [باب الشـرب قـائما](کھڑے ہوکر پینے سے متعلق باب) جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بھی روایت ہے کہ کھڑے ہو کر پیا اور فرمایا لوگ اسے مکر وہ و نا پسندیدہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کھڑے ہوکر پیتے دیکھا۔ واللہ اعلم (اس فتوے کا ترجمہ مولا نا طارق بروہی ﷾ نے کیا ہے۔)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 487
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1637
1637. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آب زمزم پلایا۔ آپ نے اسے کھڑے ہوکر نوش فرمایا۔ حضرت عکرمہ نے قسم اٹھا کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دن اونٹ پر سوار تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1637]
حدیث حاشیہ: یہ معراج کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ یہاں امام بخاری اس کو اس لیے لائے کہ اس سے زمزم کے پانی کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کا سینہ اسی پانی سے دھویا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث زمزم کے پانی کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں مگر حضرت امیر المؤمنین فی الحدیث کی شرط پر یہی حدیث تھی۔ صحیح مسلم میں آب زمزم کو پانی کے ساتھ خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے دوا بھی فرمایا گیا ہے۔ حدیث ابن عباس میں مرفوعاً یہ بھی ہے کہ ماءُ زمزمَ لِما شُرِبَ لهُ۔ کہ زمزم کا پانی جس لیے پیا جائے اللہ وہ دیتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وسمیت زمزم لکثرتها یقال ماء زمزم أي کثیر وقیل لاجتماعها۔ یعنی اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا کہ یہ بہت ہے اور ایسے ہی مقام پر بولا جاتا ہے۔ ماءزمزم ای کثیر یعنی یہ پانی بہت بڑی مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا گیاہے۔ مجاہد نے کہا کہ یہ لفظ هزمة سے مشتق ہے۔ لفظ هزمة کے معنے ہیں ایڑیوں سے زمین میں اشارے کرنا۔ چونکہ مشہور ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ کے زمین پر ایڑی رگڑنے سے یہ چشمہ نکلا لہٰذا اسے زمزم کہا گیا۔ واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1637
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5617
5617. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5617]
حدیث حاشیہ: آداب زمزم سے ہے کہ کعبہ رخ کھڑے ہو کر اسے پیا جائے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ دعا پڑھی جائے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ۔ (مستدرك حاکم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5617
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1637
1637. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آب زمزم پلایا۔ آپ نے اسے کھڑے ہوکر نوش فرمایا۔ حضرت عکرمہ نے قسم اٹھا کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دن اونٹ پر سوار تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1637]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے آب زمزم کی فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کھڑے ہو کر نوش فرمایا (پیا) ، حالانکہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت کے متعلق بکثرت احادیث وارد ہیں۔ آب زمزم کے علاوہ دوسرا پانی اگر کھڑے ہو کر پیا جائے تو اس سے نقصان کا اندیشہ ہے لیکن زمزم کا پانی سراسر شفا ہے، اس لیے اگر اسے کھڑے ہو کر پیا جائے تو اس میں کوئی نقصان نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز بھی ثابت کیا ہے، چنانچہ آئندہ ایک مستقل عنوان کے تحت اس مسئلے کو بیان کریں گے۔ حضرت عکرمہ ؒ کے بیان سے یہ مقصود ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پانی نہیں پیا بلکہ آپ تو اس دن اونٹ پر سوار تھے، حالانکہ ابوداود کی روایت میں ہے کہ طواف مکمل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا، پھر آپ نے طواف کی دو رکعت ادا کیں۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1881) شاید آپ نے آب زمزم اس کے بعد نوش کیا ہو۔ چونکہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت کے متعلق احادیث آئی ہیں، اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے انکار کیا ہے، حالانکہ حضرت علی ؓ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پیا تھا۔ (صحیح البخاري،الأشربة، حدیث: 5616) بہرحال عام حالات میں بیٹھ کر ہی پانی پینا چاہیے لیکن کبھی کبھار بیان جواز کے طور پر کھڑے ہو کر پانی پینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 623/3) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1637
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5617
5617. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5617]
حدیث حاشیہ: (1) جمہور اہل علم کے نزدیک کھڑے کھڑے پانی پینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ کوئی عذر بیٹھنے سے مانع ہو۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے کھڑے پانی پینے پر جھڑکا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5277 (2025) جمہور اہل علم کے نزدیک یہ نہی تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے، تاہم بیٹھ کر پانی پینا بہتر ہے۔ (3) جو حضرات کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ خیال کرتے ہیں، ان کے نزدیک بھی وضو سے بچا ہوا پانی اور آب زمزم کھڑے ہو کر پینا سنت ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واقعے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5617