(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم، عن شعيب، قال: انبانا الليث، عن ابن الهاد، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر، قال:" طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبيت سبعا، رمل منها ثلاثا، ومشى اربعا، ثم قام عند المقام، فصلى ركعتين، ثم قرا: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125 , ورفع صوته يسمع الناس، ثم انصرف، فاستلم، ثم ذهب، فقال: نبدا بما بدا الله به، فبدا بالصفا، فرقي عليها حتى بدا له البيت، فقال ثلاث مرات: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت، وهو على كل شيء قدير، فكبر الله وحمده، ثم دعا بما قدر له، ثم نزل ماشيا حتى تصوبت قدماه في بطن المسيل، فسعى حتى صعدت قدماه، ثم مشى حتى اتى المروة فصعد فيها، ثم بدا له البيت، فقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، قال: ذلك ثلاث مرات، ثم ذكر الله وسبحه، وحمده، ثم دعا عليها بما شاء الله، فعل هذا حتى فرغ من الطواف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، رَمَلَ مِنْهَا ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ قَامَ عِنْدَ الْمَقَامِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَرَأَ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 , وَرَفَعَ صَوْتَهُ يُسْمِعُ النَّاسَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَاسْتَلَمَ، ثُمَّ ذَهَبَ، فَقَالَ: نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا، فَرَقِيَ عَلَيْهَا حَتَّى بَدَا لَهُ الْبَيْتُ، فَقَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، فَكَبَّرَ اللَّهَ وَحَمِدَهُ، ثُمَّ دَعَا بِمَا قُدِّرَ لَهُ، ثُمَّ نَزَلَ مَاشِيًا حَتَّى تَصَوَّبَتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْمَسِيلِ، فَسَعَى حَتَّى صَعِدَتْ قَدَمَاهُ، ثُمَّ مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَصَعِدَ فِيهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ الْبَيْتُ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، قَالَ: ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ ذَكَرَ اللَّهَ وَسَبَّحَهُ، وَحَمِدَهُ، ثُمَّ دَعَا عَلَيْهَا بِمَا شَاءَ اللَّهُ، فَعَلَ هَذَا حَتَّى فَرَغَ مِنَ الطَّوَافِ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے سات پھیرے کئے ان میں سے تین میں رمل کیا اور چار میں عام چال چلے پھر مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر دو رکعات پڑھیں، پھر آپ نے آیت کریمہ: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ“ پڑھی اور اپنی آواز بلند کی آپ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ پھر آپ وہاں سے پلٹے اور جا کر حجر اسود کا استلام کیا اور فرمایا: کہ ہم وہیں (سعی) شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے (اپنی کتاب میں) شروع کی ہے، تو آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا تو آپ نے تین مرتبہ «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» کہا، پھر آپ نے اللہ کی تکبیر اور تحمید کی۔ اور دعا کی جواب آپ کے لیے مقدر تھی، پھر آپ پیدل چل کر نیچے اترے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم وادی کے نشیب میں رہے پھر دوڑے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم بلندی پر چڑھے، پھر عام چال چلے یہاں تک کہ مروہ کے پاس آئے اور اس پر چڑھے پھر خانہ کعبہ آپ کو دکھائی دینے لگا تو آپ نے «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» تین بار کہا۔ پھر اللہ کا ذکر کیا اور اس کی تسبیح و تحمید کی۔ اور دعا کی جو اللہ کو منظور تھی ہر بار ایسا ہی کیا یہاں تک کہ سعی سے فارغ ہوئے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2964
اردو حاشہ: امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی دو رکعتوں کے بعد مذکورہ بالا آیت پڑھنا مسنون ہے اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا یہ آیت پڑھنا بطور استدلال تھا کہ اس سے مراد طواف کی دو رکعتیں ہیں۔ یہی صحیح ہے۔ اسی لیے علماء نے دو رکعتوں کے بعد اس آیت کے پڑھنے کو مسنون نہیں لکھا، نیز بعض روایات میں منقول ہے کہ آپ نے یہ آیت دو رکعتوں سے پہلے پڑھی تھی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218، وسنن النسائي، مناسك الحج، حدیث: 2965، 2966) یاد رہے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے جاتے ہیں مگر صفا سے مروہ تک آنا ایک چکر شمار ہوتا ہے اور مروہ سے صفا پر آنا دوسرا چکر۔ اس طرح مروہ پر ساتواں چکر پورا ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2964